پاکستان کی سیاست بازیچۂ اطفال

دنیا استحکام کی راہوں پر گامزن ہے اور پاکستان ایک بازیچۂ اطفال بن کر رہ گیا ہے۔قانون کی حکمرانی کا تصور عنقا ہے کرپشن کا دور دورہ ہے۔
معیشت کا ٹائی ٹینک حالات یا بدحالی کے آئس برگ سے چند قدم کی دوری پر ہے۔ ان حالات سے مایوس ہوکر دہائیوں سے برین ڈرین ہو رہا ہے ۔پاکستان کے بہترین دماغ جنہیں آگے چل کر ملک وقوم کے لئے بہت سے کارنامے انجام دینا تھا مغربی دنیا میں جا بسے ہیں ۔ادیبوں ،دانشوروں ،فنکاروں ماہرین تعلیم کی بہت بڑی تعداد جنہوں نے پاکستان میں کام بھی کیا اور نام بھی کمایا مختلف ادوار میں حالات سے مایوس ہو کر دور دیس سدھار گئے۔
اسی اور نوے کی دہائیوں کے بڑے اور مشہور نام آج یورپ اور امریکہ کے ٹیوب سٹیشنوں پر بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان کے مستقبل کو حکمران اشرافیہ کی پالیسیوں اور حالات کی دوربین سے دیکھ لیا تھا اسی لئے وہ اپنا راستہ الگ کر بیٹھے مگر یہ لوگ آج بھی پاکستان کی دُرگت بنتے دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں ۔یہ ملک ہے یا تماشاہ گاہ کہ افراد کی ضرورتوں کے مطابق قوانین بنتے اور ختم ہوتے ہیں۔ ایک دور کا محبوب دوسرے دور کا معتوب اور مصلوب قرار پاتا ہے ۔ عوام کے لب ”قومی مفاد” کے دھاگے سے سی لئے جاتے ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت ہونے والے فیصلوں نے پاکستان کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ طاقتور کے لئے ایک قانون اور کمزور کے لئے دوسرا کے یہ اصول اسلام کے تصور انصاف اور انسانیت کی روح کے خلاف ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان اسی ماحول میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے نہ اس ملک میں سیاسی استحکام آتا ہے نہ اس کی معیشت سنبھل رہی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل اقتدار اور طاقت کی اس میوزیکل چیئر کے کھیل سے تنگ آ چکی ہے۔ پاکستان رواں برس کے آغاز سے مسلسل عدم استحکام کی راہوں پر لڑھک رہا ہے ۔یہ ملک سیاسی طور پر یوکرین اور تائیوان بن چکا ہے جہاں ایک زور دار عالمی کشمکش جاری ہے ۔ بائیس کروڑ آبادی، ایٹمی طاقت اور ایک بڑی فوج اور اہم ترین جغرافیائی محل وقوع کا حامل ملک ہونے کی وجہ سے بڑی عالمی طاقتوں کا اس ملک پر اپنا اثر رسوخ قائم کرنا عین فطری ہے۔ یوں اس ملک کا پوٹنشیل اسے عالمی طاقتوں کے لئے ناگزیز بنانے کا باعث بنتا رہا ہے۔
سرد جنگ کے دور سے ہی یہ بڑی طاقتوں کی زورا زوری کا مرکز رہا ہے اور اب جبکہ ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے تو دوبارہ اس ملک کو اپنی طرف کھینچنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔
اس عالمی تقسیم کے اثرات مقامی سطح پر بھی برآمد ہوتے ہیں ۔کچھ لوگوں کے خیال میں کسی ایک کیمپ کے ساتھ جانا تقاضائے وقت ہوتا ہے تو کچھ کے خیال میں کسی دوسرے کیمپ میں جانا ہی قومی مفاد کا تقاضا ہوتا ہے ۔
سوچ کے اس اختلاف کو مستحکم سیاسی نظام اور اجتماعی دانش سے کم کیا جا سکتا تھا مگر پاکستان سیاسی استحکام کی منزل سے ہمیشہ دور رہا ۔ ہر دس سال بعد یہاں بین الاقوامی ضرورت بدلتے ہی مارشل لاء نافذ ہو جاتا ہے اور پھر جب قوم کے دس برس اس کی نذر ہوتے ہیں تو دوبارہ بحالی جمہوریت کے جرثومے جنم لیتے ہیں۔ یوں لولی لنگڑی جمہوریت بحال ہوتی ہے ۔اس جمہوریت کے تقاضے بھی سیاسی طور پر پورے نہیں ہوتے ۔سیاسی جماعتیں معروف جمہوری اصولوں پر منظم ہوتی ہیں نہ وہ داخلی طور پر کسی احتساب کے نظام پر یقین رکھتی ہیں ۔جس کے نتیجے میں سیاست و جمہوریت کا دائرہ بھی سکڑتا چلا جاتا ہے ۔بدقسمتی سے یہ کھیل پچہتر برس سے جاری ہے اور اس عرصے میں دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی مگر پاکستان بدستور دائرے کا مسافر ہے ۔دائرے کے سفر کا کوئی اختتام کوئی منزل نہیں ہوتی ۔رواں برس آنے والی سیاسی تبدیلی کے بعد ملک میں جاری بحران سنگین اور ہمہ پہلو ہو گیا ۔عمران خان نے اپنی حکومت کی تبدیلی کے عمل کو ”رجیم چینج ” کا نام دیا ۔گویا کہ بالکل ایسی ہی تبدیلی جو مغرب عراق ،لیبیا یوکرین مصر وغیرہ میں مقامی سہولت کاروں سے مل کر برپا کرتا ہے ۔عوام نے اس نظریے کو قبول کر لیا اور اس وقت سے عمران خان اور ان کے بپھرے ہوئے حامی سڑکوں پر ہیں۔ان کے مقابل تیرہ جماعتوں کی مخلوط حکومت نہ تو سیاسی استحکام کی طرف بڑھ سکی نہ ملک کو معاشی استحکام میسر آ رہا ہے ۔
عمران خان حکومت کی تبدیلی کا تجربہ بھی ملک کو کسی حقیقی استحکام سے دو چار نہیں کر سکا ۔ایسے میں عالمی کشمکش گہری ہو رہی ہے اور پاکستان کے پاس دوطرفہ دبائو کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ وقت نہیں ۔وہ پوری طرح امریکہ کی جھولی میں گر جاتا ہے تو اس کا مطلب سی پیک کا خاتمہ اور چین سے رخ موڑ کر بھارت کی امامت اور سیادت قبول کرنا ہے ۔امریکہ اس خطے میں پاکستان کو چین سے دور کرنے اور امریکہ کی تولیت میں دینے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے یہ پاکستان کے قوم پرست طبقے کو قبول نہیں ۔اس مخمصے کو دور کئے بغیر پاکستان کے موجودہ عارضے کا علاج ممکن نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟