تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں ہی خود کشی کرے گی

کچھ مدت پہلے ہمیں سمجھایا جاتا تھا کہ ہم تہذیبوں کے تصادم کے دور میں جی رہے ہیں ‘ اور یہ تصادم مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان بُعدالمشرقین کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ‘ مشرقی تہذیب کی قدروں میں باہمی احترام ‘ مذہبی ہم آہنگی ‘ برداشت وغیرہ شامل ہوا کرتی تھیں’ جبکہ مغربی تہذیب کو نام نہاد انسانی آزادیوں کے حوالے سے بدتہذیبی ‘ بے راہ روی ‘ پے پردگی اور نہ جانے اور کون کونسی خرابیوں کا مرقع سمجھ کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی تھی ‘ علامہ اقبال نے جو خود یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کے دوران مغربی معاشرے سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے اور مشرقی تہذیب کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے علمبردار تھے ‘ انہوں نے مغربی تہذیب کی کج رویوں کا جائزہ لیکر بجا فرمایا تھا یعنی ان کا تخاطب مغربی اقدار تھیں
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا’ ناپائیدار ہو گا
ہمارے ہاں برصغیر میں تہذیبی روایات اس قدر پختہ اور راسخ تھیں کہ لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے بھی زبان کو آلودہ کرنے سے حتی المقدور حذر کرتے تھے ‘ اور اس حوالے سے لکھنؤ میں جہاں مہمانداری میں پہلے آپ اور پہلے آپ کی تہذیبی تکرار سے ایک دوسرے کا احترام محلوظ رکھا جاتا تھا ‘ وہاں اگر کسی بات پر تو تکار ہو جاتا تو گالیاں دیتے ہوئے جن شدت جذبات کا اظہار کیا جاتا وہ بس اتنا تھا کہ ”دیکھئے اگر آپ خاموش نہیں رہیں گے تو ہم آپ کے ابا جان کی شان میں گستاخی کر بیٹھیں گے ” اب ذرا زبان و بیان کی نازک آفرینی ملاحظہ کیجئے کہ گالی کہاں اور یہ جملہ کہاں کہ ہم آپ کے ابا جان کی شان میں گستاخی کر بیٹھیں گے ‘ اس پر سامنے والا بھی کہاں نچلا بیٹھ سکتا تھا ‘ وہ ترنت یہ ا لفاظ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ”ارے زبان سنبھال کے ‘ اگر آپ ہمارے ابا جان کی شان میں گستاخی کریں گے تو کم ہم بھی نہیں ہیں ‘ ہم آپ کے دادا جان کی شان اقدس میں زبان درازی کر دیں گے” سبحان اللہ ‘ کیا جھگڑے ہوتے تھے اور کیا انداز تھا ایک دوسرے کے اہل خاندان کی ”بے عزتی” کی ‘ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں تبدیلی آتی گئی اور لکھنوی تہذیب جہاں سب سے بڑی گالی ”جوتی چل جائے گی”یعنی زبانی گالیوں سے بات ہاتھ پائی تک آجائے گی مگر مزے کی بات یہ ہے کہ واقعی دھینگا مشتی تک نوبت آ بھی جاتی تھی مگر مجال ہے جو زبان ”غلیظ” گالیوں سے آلودہ ہو جاتی حالانکہ لکھنو کے مقابلے میں دوسرے شہروں اور علاقوں میں حالات قدرے مختلف تھے اور دلی میں گالم گلوچ ذرا کھل کر دی جاتی ‘ اگرچہ اشرافیہ کے ہاں پھر بھی تہذیبی اقدار کا احساس موجود تھا اس لئے صورتحال کو نازک ہوتے دیکھ کر خواجہ حیدر علی آتش نے اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کیا خوب کہا تھا کہ
لگے منہ بھی چڑانے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑ تھی لیجے دہن بگڑا
دراصل اس تہذیبی ارتقاء کے تذکرے پر بہ امر مجبوری لکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو شاید اپنے محولہ شعر سے رجوع کرکے ”توبہ توبہ ” کرتے ‘ کیونکہ اپنی تہذیبی برتری اور اہل مغرب کی جس بے راہ روی کو سامنے رکھ کر انہوں نے مغربی معاشرے اور تہذیب کے حوالے سے خود کشی کی پیشگوئی کی تھی وہ تو اپنی تمام تر بدتہذیبی ‘ عریانیت اور بے راہ روی کے ساتھ اسی طرح قائم و دائم ہے البتہ ان کی اس بدتہذیبی کے اثرات ہمارے معاشرے میں جس تیزی سے سرایت کرتے جا رہے ہیں ‘ بلکہ بہت حد تک پھیل چکے ہیں ‘ ان کے مظاہر ہم آئے روز سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں ‘ فیس بک اور ٹوئٹر پر لگنے والی بعض پوسٹوں کو دیکھ کر بندہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے ‘ اس حوالے سے اگر بعض سیاسی ٹرولز کے کردار کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بدتہذیبی اور پراگندگی کا وہ کونس گڑھا ہے جہاں لوگ نہیں پہنچے ‘ ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے ‘ ایک دوسرے کے لتے لیتے ان لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ پوسٹیں جو وہ شیئر کر رہے ہیں ‘گھروں میں خواتین بھی دیکھتی ہیں ‘ ایک دوسرے کو برے ناموں اور برے الفاظ سے یاد کرتے ہوئے وہ مرزا غالب کی یہ بات تک یاد نہیں کرتے جو انہوں نے کسی کی جانب سے گالیوں بھرا خط وصول کرنے کے بعد کہی تھی کہ گالیاں دینے کا بھی ایک سلیقہ ہے ‘ یعنی خط لکھنے والے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ بچے کو ماں ‘ جوان کو بہن ‘ شادی شدہ کو بیوی اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دی جائے تب اس کا خون جوش مارتا ہے ” خیر اب کسی کا خون جوش کیا مارے گا کہ سوشل میڈیا کے اس حمام میں صرف مرد ہی نہیں صنف نازک بھی ”آپے سے باہر” ہو رہی ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جس بدتہذیبی کا مظاہرہ کر رہی ہیں انہیں دیکھ کر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ‘ آئے روز سیاسی جلسوں میں جس قسم کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں ان سے ان خواتین کی تربیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ‘ اس پر تو مرزا غالب کے بقول یہی کہا جا سکتا ہے کہ
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
بدتہذیبی کے اس انبوہ بے اماں کے بیچ کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو نقاب اوڑھ کر یعنی خواتین کے لبادے میں اپنے خبط باطن کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور خصوصاً ایسی پوسٹوں پر جوابی پوسٹیں لگاتے ہیں جو خواتین سے منسوب ہوتی ہیں ‘ یعنی بقول سید محمد جعفری مرحوم
جس کو سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی
اہل سیاست نے خدا جانے ایسا کیا جادو کر دیا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر ایسی خواتین بھی سرگرم ہیں جو نہ صرف بدتہذیبی ‘ بد تمیزی والی پوسٹیں شیئر کرتی ہیں ادھرکسی نے نہیں جواب دیا تو یہ ڈنڈے سوٹے لے کر ان کے مقابل آجاتی ہیں اور ایسے ایسے القابات سے انہیں نوازتی ہیں کہ الاماں و الحفیظ ۔ یعنی بقول منیر دہلوی
فرہاد سے کہتی تھی ‘ تیشے کی زباں ہر دم
مغموم نہ ہو ناداں ‘ سنگ آمد وسخت آمد

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات