رشی سوناک سے وابستہ توقعات

جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے باشندوں کا ایک خاص مزاج ہے۔ وہ اپنے ملکوں کے حکمرانوں سے زیادہ چند مغربی ممالک کے حکمرانوں سے اپنی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ، جب ان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر کے طور پر باراک اوباما کے منتخب ہونے پر جنوبی ایشیا کے عوام میں، جو جوش و خروش اور جذبات دیکھنے میں آئے، وہ مثالی تھے۔ تاہم اوباما کے سلسلے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پوری مسلم دنیا اور سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی باشندے انہیں اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے اور اس اْمید سے سرشار نظر آنے لگے کہ اوباما ان تمام گہرے زخموں پر نہ صرف مرہم رکھیں گے بلکہ انہیں مندمل ہونے کیلئے سب کچھ کر جائیں گے، جو اب دنیا کی تاریخ کا حصہ بن چْکے ہیں۔ لیکن حقیقی دنیا میں جینا بہتر ہوتا ہے۔ تصوراتی و تخیلاتی خوش فہمیوں اور طلسماتی دنیا میں رہنے سے سوائے صدموں اور تکالیف اْٹھانے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اوباما کے دور اقتدار کے خاتمے پر دنیا کے تقریباً تمام مسلمانوں اور خود امریکہ کے سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والے باشندوں کے ساتھ یہی ہوا۔ مشرق وسطیٰ ہو یا جنوبی ایشیا یہاں تک کہ خود امریکہ میں رہنے والے مسلمان اور سیاہ فام باشندے، جو اپنے اپنے دیرینہ مسائل کو حل ہوتا دیکھنا چاہتے تھے، امن و انصاف اور حق کی فتح کا خواب دیکھ رہے تھے، وہ اپنے خوابوں کی دنیا میں ہی ڈوب کر رہ گئے۔
اب برطانیہ میں ایک بھارتی نژاد وزیر اعظم کی تقرری پر بھارت سمیت، جہاں جہاں بھارتی باشندے آباد ہیں، وہاں خوشی منائی جا رہی ہے۔ دو سو سال کی تاریخ میں پہلی بار کسی بھارتی نژاد سیاستدان کو اپنے سابق نوآبادیاتی حکمرانوں کی موجودہ نسل پر حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رشی سوناک اپنے آبائی ملک بھارت سے لے کر، جس ملک کے وہ شہری ہیں، اْس ملک کے عوام کی طرف سے، جو امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں ، ان پر کس حد تک پورا اْتریں گے؟
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ کسی فرد واحد سے انتہا سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لینے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ماضی بعید کی بات نہیں، 2009 ء کے اسی مہینے یعنی اکتوبر میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ تب اوباما کو اقتدار میں آئے صرف نو ماہ ہوئے تھے اور اس قلیل مدت میں تو انہوں نے قیام امن کے لیے کوئی کام کرنا تو کجا، اس بارے میں شاید سوچا بھی نہ ہو گا کہ دنیا کہ کن کن خطوں میں قیام امن کی اشد ضرورت پائی جاتی ہے۔ بہرحال اوبامانے اپنا انعام وصول بھی کیا اور امریکی پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھتے بھی رہے۔ بہت سے افراد کے لیے اوباما کو امن کا نوبل انعام ملنا قابل حیرت بات تھی کیونکہ یہ انعام حاصل کرنے سے چند ماہ پہلے اْسی سال یعنی 2009 ء فروری میں اوباما نے اپنے ایک انتہائی اہم عسکری فیصلے کے تحت مزید 17 ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں امریکی سیاست کا دھارا بدستور اپنی اصل ڈگر پر چلتا رہا اور دنیا بھر میں، جہاں جہاں عام لوگ باراک اوباما سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے، وہاں وہاں نااْمیدی کے بادل چھاتے رہے۔ اب ایک ایسے وقت میں جبکہ یورپ نہ صرف روس اور یوکرین کی جنگ سے بلکہ توانائی کے بحران، کساد بازاری، روزگار کی منڈی کی ابتر صورتحال جبکہ قابل اور پیشہ ور کارکنوں کی شدید کمی جیسے مسائل سے دوچار ہے اور برطانیہ بریگزٹ کے بعد سے اپنے معاشی اور سیاسی مسائل کو لے کر پریشان ہے، دو ماہ کے اندر برطانیہ کے تیسرے وزیر اعظم منتخب ہونے والے رشی سوناک کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے، جس کی مدد سے وہ تمام مسائل کا حل پیش کر دیں گے؟
رشی سوناک نے اپنے عوام کو معاشی استحکام کا، جو سنہرا خواب دکھایا ہے، وہ کس حد تک شرمندہ تعبیر ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ معاشی مسائل کے حل کے لیے انہیں اپنے عوام کو اکانومک اوسٹیریٹی یعنی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری کا بھجن سنانا ہو گا اور عوام کو ایسا کرنے کے لیے قائل کرنا ہو گا۔ اصل چیلنج یہیں سے شروع ہو گا۔بھارت، جو ان کا آبائی ملک ہے، رشی سوناک کے وزیر اعظم بننے کے بعد بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رہا ہے، یہ بھول کر کہ جب برطانیہ سیاسی بساط اور معاشی میدان میں بمقابلہ بھارت کھڑا ہو گا تو رشی سوناک کس کا ساتھ دیں گے؟ ظاہر ہے کہ برطانیہ کا۔ یہی وہ ملک ہے، جس کے بہترین اور اعلیٰ ترین معیاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے اور کروڑ پتی خاندان کا چشم و چراغ ہوتے ہوئے رشی سوناک کو نسبتاً قلیل مدت میں سیاسی طور پر سرگرم رہنے کے بعد ہی برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ رشی سوناک کی وفاداری سب سے پہلے اسی سرزمین کے لیے ہو گی۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے