مشرقیات

مفانہ قید سے چھوٹیں تو سیدھے آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں عرض کیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں! آپۖ نے انہیں کلمہ پڑھایا اسلام لے آئیں تو اپنے قبیلے کے قیدیوں کی سفارش کی ۔ ان کی تعداد نو سو تھی اللہ کے رسول نے سب کو آزاد کر دیا۔ یہ خوش خوش گھر گئیں اور بھائی عددی بن حاتم کو پیام بھیجا کہ تم بھی اسلام قبول کر لو دنیا اور آخرت میں تمہاری نجات کا ہی ذریعہ ہے چنانچہ شعبان 10 ھ میں ان کے بھائی عددی بن حاتم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ا قدس میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے۔حاتم کا زمانہ حضور اکرمۖ سے ذرا پہلے کا ہے یہ اللہ کا نیک بندہ دوسروں کا بڑا خیال رکھنے والا تھا۔۔ بڑا سچا بڑا اچھا بڑا سخی بڑا مہمان نواز ایسا خوش اخلاق کہ اس کی باتوں میں پھولوں کی خوشبو تھی وہ بڑا دل والا اور بڑی ہمت والا بھی تھا۔ ا یک دن اس کے کچھ دوستوں نے اس سے پوچھا کہ تم نہ جانے کتنے آدمیوں سے مل چکے ہو ۔ طرح طرح کے لوگ تمہارے مہمان ہوتے اور تم سے باتیں کرتے رہتے ہیں اللہ نے تمہیں بڑی اونچی نظر اور بلند ہمت کا آدمی بنایا ہے بس ایک بات بتائو کہ تم نے کوئی اپنے سے بھی بلند ہمت کا آدمی دیکھا ہے۔یہ دنیا عجیب جگہ ہے یہاں اچھے برے ہر طرح کے آدمی ملتے ہیں کچھ ظاہر دار اور بلا کے ظاہردار ہوتے ہیں کچھ تن اور من کے میلے ہوتے ہیں اور بہت میلے ان میں پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں جاہل بھی تخت و کرسی پر بیٹھنے والے بھی مفلس اور بے نوا بھی ۔ تن اور من کے اجلے بہت کم ہوتے ہیں۔ ان میں امیر و غریب کی کوئی تفریق نہیں ہوتی یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے اور سیدھے راستے پر چلنے والے ہوتے ہیں ۔ قرآن نے بھی بڑائی کا یہی معیار قرار دیا ہے ۔ حاتم نے اپنے دوستوں سے کہا ۔ ہاں! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا۔ دوستوں نے پوچھا۔وہ کون تھا؟ اس نے کہا۔ایک دن میں نے چالیس اونٹ ذبح کئے اعلان عام کیا کہ سب کی دعوت ہے جس کا جی چاہے آئے اور کھائے ۔ میرے دسترخوان پر طرح طرح کے لوگ آئے امیر غریب عورت مرد بچے ۔ لوگ میرے گھر پر کھانے پینے میں لگے تھے کہ مجھے ایک ضرورت سے جنگل جانا پڑا جنگل میں میں نے ایک لکڑ ہارے کو دیکھا کہ لکڑیاں کاٹ رہا ہے میں نے اس سے کہا۔ بھلے مانس یہ تو کیا کر رہا ہے ۔اس نے جواب دیا۔ بھائی !لکڑیاں کاٹ کر بستی میں لے جائوں گا بیچ کر اپنا اور اپنی بیوی بچوں کاپیٹ پالوں گا۔حاتم نے کہاتم نے سنا نہیں کہ بستی میں ایک بہت بڑی دعوت ہورہی ہے تم بھی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ وہاں جا کے کھا لیتے ۔ اس محنت اور مصیبت کی کیا ضرورت تھی۔اس لکڑہارے نے جواب دیا۔ بھیا !تم ٹھیک کہتے ہو ۔ بس اپنے اپنے اصولوں کا فرق ہے جو آدمی محنت کی روٹی کھاتا ہے وہ کسی کا احسان نہیں اٹھاتا۔ حاتم نے اپنے دوستوں سے کہا۔ اس شخص کی ہمت اور جوانمردی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔خود داری بڑی چیز ہے مانگنے والا خود داری کھو بیٹھتا ہے مانگنے میں بھیک مانگنا بھی شامل ہے اور کوئی رعایت مانگنا بھی۔ دنیا میں بڑی ترغیبیں ہوتی ہیں ان میں خوددار رہنا بڑی بات ہے۔ بہت بڑی بات!۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم