نئے بجلی گھروں کی تعمیر

عالمی بنک نے آئندہ سال ضلع سوات میں 245 میگا واٹ کے دو پن بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے جن کی تکمیل سے صوبے کو سالانہ13 ارب روپے سے زائد کی آمدن ہو گی’ توانائی کے ان منصوبوں سے ایک طرف صوبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری آئے گی تو دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے’ ان منصوبوں میں 157 میگاواٹ کا مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 88میگا واٹ کا گبرال کالام ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شامل ہیں اس سلسلے میں عالمی بنک اور صوبائی حکومت کے درمیان 450 ملین ڈالر معاہدے پر دستخط کئے جا چکے ہیں ‘ یہ منصوبے 2027ء تک مکمل کئے جائیں گے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان منصوبوں پرگزشتہ صوبائی حکومتوں کے ادوار میں کام شروع کرتے ہوئے کاغذی کارروائی کا آغاز کیاگیا تھا’ خصوصاً ایم ایم اے اور بعد ازاں اے این پی ادوار میں بھی ان منصوبوں کی باز گشت سنائی دی تھی مگر خدا جانے وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے بروقت عملی اقدام نہ اٹھایا جا سکا’ جس کی وجہ سے یقیناً اب ان پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی خاصا اضافہ ہو چکا ہو گا’ جو سرکاری طور پر جاری کئے جانے والے ہینڈ آؤٹ کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی بنک کی طرف سے توانائی کے شعبے میں مالی معاونت کی فراہمی اور صوبے میں توانائی کے شعبے کی ترقی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے منصوبے کی ٹائم لائن پر نظر ثانی کرتے ہوئے متعلقہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ وہ دی گئی ٹائم لائنز پر تیز رفتاری سے عمل کریں’ اور اس حوالے سے کسی بھی سست روی کو برداشت نہیں کیا جائے گا ‘ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ منصوبے کی تکمیل میں سست رفتاری اور اخراجات میں اضافے سے نہ صرف صوبے کی معیشت پر منفی اثر پڑے گا بلکہ منصوبے کے اخراجات بڑھ جانے سے اس کی افادیت بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے’ یاد رہے کہ صوبے کے بالائی علاقوں خصوصاً سوات ‘ دیر ‘چترال ‘ کاغان وغیرہ میں بے شمار ایسے مقامات کی نشاندہی ماہرین عرصہ پہلے کر چکے ہیں جہاں پانی کے دستیاب وسائل کو بروئے کار لا کر پن بجلی کے منصوبوں کی تکمیل سے سستی ترین بجلی حاصل کی جا سکتی ہے ‘ جس سے نہ صرف وافر مقدار میں سستی بجلی پیدا کرکے بجلی کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ فالتو بجلی سے صنعتوں کو فروغ دے کر ملکی وسائل بڑھائے جا سکتے ہیں’ امید ہے کہ اس حوالے سے دیگر ایسے منصوبوں پر بھی کام شروع کرنے میں عالمی مالی تعاون حاصل کیا جائے گا۔
سٹریٹ کرائمز کی روک تھام
پشاور کے شہری علاقوں میں سٹریٹ کرائمز میں مسلسل اضافے سے عوام سخت پریشان ہیں’ خصوصاً موٹر سائیکلوں کی چوری ‘ پیدل چلنے والوں سے اسلحہ کے زور پر نقدی ‘ موبائل فونز اور خواتین سے پرس چھیننے کی وارداتوں میں اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے ‘ جب کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان وارداتوں کی روک تھام میں پوری طرح کامیاب دکھائی نہیں دیتے’ اس ضمن میں اب مختلف مقامات پر خصوصی ناکے لگائے گئے ہیں جن کا دوسری طرف منفی ا ثر پڑ رہا ہے اور ان ناکہ بندیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں جہاں صبح یا شام کے اوقات میں عوام کی آمدوفت میں اضافے کی وجہ سے سڑکیں بلاک ہونا شروع ہوگئی ہیں اور بچے سکولوں جب کہ ملازمین دفاتر اور دکاندار مارکیٹوں میں دیر سے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں’ ادھر کچھ عرصہ پہلے جو غیر ضروری سپیڈ بریکرز گلیوں میں تعمیر کئے گئے تھے یا پھر نسبتاً بڑی سڑکوں پر کیٹس آئیز سے گاڑیوں وغیرہ کی رفتار پر قابو پانے کی کوشش کی گئی تھی ‘ ان کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے جا چکے ہیں مگر ان پر عمل درآمد تاحال دکھائی نہیں دیتا ‘ متعلقہ حکام اس صورتحال کا نوٹس لے کر مناسب اقدامات سے اصلاح احوال پر توجہ دیں۔
سرکاری ملازمین کی حالت زار
روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں عوام کی قوت خرید پر منفی ا ثرات مرتب کر رکھے ہیں وہاں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن کی بروقت ادائیگی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے’ گزشتہ مہینے بھی تاخیر سے ادائیگی کی صورت حال سامنے آئی تھی جب کہ اب ایک بارپھرمبینہ طور پر ملازمین کو بعد از وقت تنخواہوں اورپنشن کی تشویشناک خبریں سامنے آئی ہیں’ ایسا لگتا ہے کہ اب اس صورتحال نے مستقل شکل اختیار کر لی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی توشاید آنے والے مہینوں میں یہ تاخیری ”حربے” ملازمین کو مسلسل پریشان کرتے رہیں’ اس ضمن میں ہم کوئی سخت الفاظ استعمال کرکے سرکاری ملازمین کی فریاد پر تبصرہ نہیںکرنا چاہتے نہ ہی مبینہ حکومتی اللوں تللوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں’ تاہم بہتر ہوگا کہ حکومت اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے پر ہمدردانہ غور کرے۔

مزید پڑھیں:  اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر