آئین کی بالادستی

جب سے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا ہے ‘ تب سے تحریک انصاف کے سربراہ اور دیگر رہنمائوں نے ملکی اہم ادارے کے خلاف بیانیہ بنا کر نام لئے بغیر ادارے کے اہم عہدیداروں پر الزامات کو وتیرہ بنا رکھا ہے ‘ اور عوام کے اندر منفی پروپیگنڈہ کرکے مبینہ طور پرسیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کی ”بحالی” کے لئے متعلقہ اہم عہدیداروں پر دبائو ڈال کر انہیں موجودہ حکومت کو ”غیر آئینی” اقدام کے ذریعے گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ‘اس صورتحال سے جہاں دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچ رہا ہے وہاں ملکی معیشت اور اقتصادیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ متعلقہ ادارے نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران صورتحال پر غور و خوض کرکے حتمی طور پر یہ فیصلہ کرکے کہ وہ ملکی سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کے آئینی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیر جانبداری کے اصولوں کو اپنا کر سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کو ہی ملکی حالات کو سلجھانے کے مواقع فراہم کرے گا ‘ جس کو اصولی طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے ‘ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے اس بیان کی پذیرائی ہونی چاہئے جو انہوں نے گزشتہ روز دیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان خوش آئند ہے ‘ جناب سراج الحق کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ غیر سیاسی رہنا پورے ادارے کا فیصلہ تھا ‘ عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے آرمی چیف کو توسیع کی پیشکش ہوئی ‘ انکار پر میر جعفر ‘ غدار ‘ نیوٹرل ‘ جانور کہا گیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم غلط ہو سکتے ہیں ‘ سازشی یا غدار نہیں ‘ ماضی کی غلطی کو اپنے خون سے دھو رہے ہیں ‘ عوام اداروں پر اعتماد رکھیں ‘ ادھر تحریک انصاف کے رہنمائوں نے محولہ پریس کانفرنس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے فیصلوں ‘ ایکشنز پر تنقید عمران خان کا آئینی حق ہے ‘ فوجی ترجمان کی باتوں سے دھچکا لگا ‘ انتخابات کے لئے اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کہنا غیر آئینی نہیں ‘ جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے توسیع کی آفر کی تھی کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ فوج پر تنقید تعمیری ہو ‘ ملک کی خاطر بات چیت ہوئی آزادی مارچ حکومت گرانے یا لانے کے لئے نہیں ‘ چاہتے ہیں فیصلے ملک کے اندر ہوں ‘ دوسری جانب وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ فوج کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب تحریک انصاف نے فوج مخالف بیانیہ اپنایا ہے اور عوام کو متحرک کرکے حکومت کو جسے وہ امپورٹڈ حکومت کا نام دیتی ہے، گرانے کی کوشش کر رہی ہے تب سے یہ الزامات بھی لگائے جارہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو کسی مبینہ سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تھا اور یوں اپنی سوچ کے مطابق اپنے مخالف عناصر کو مختلف ناموں سے موسوم کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کیا جارہا ہے ‘ تاہم اس حوالے سے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے جس طرح ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا ہے کہ فوج کو میرجعفر ‘ میر صادق ‘ غدار ‘ نیوٹرل اور جانور کہہ کر پکارا جاتا ہے ‘ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے آئین سے انحراف کرکے تحریک انصاف کو کوئی اور رعایت دینے سے انکار کر دیا ‘ اور جولوگ انہیں نامناسب ناموں سے پکارتے ہیں وہ دن میں توگالیاں دیتے ہیں مگر رات کو روابط استوار کرتے ہیں ‘ ہمارے خیال میں اس وضاحت کے بعد تحریک انصاف کے لئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے رویئے پر نظرثانی کریں’ تحریک کے رہنماؤں کا یہ کہنا کہ انہوں نے جنرل باجوہ سے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کرکے کوئی غیر آئینی اقدام نہیںکیا’ جب کہ درحقیقت یہی تو غیرآئینی مطالبہ ہے کیونکہ جنرل باجوہ کی طرف سے بھی یہی جواب دیا گیا کہ انتخابات کروانا ان کے ادارے کا کام نہیں ہے بلکہ آئین کے تحت سول حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے ہی یہ کام کرنے کے مجاز ہیں’ تو اس کے باوجود تحریک کے رہنماؤں کی اس بات میں کتنا وزن ہے کہ انتخابات کا مطالبہ کرکے انہوں نے کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا ‘ جہاں تک فوج پر تنقید کرنے کا تحریک انصاف کے حق والے بیانیے کی بات ہے تو اس ضمن بھی گزارش ہے کہ تنقید کسی بھی ادارے پر ہوسکتی ہے مگر اس کے لئے آئین و قانون کی حدوں کا جائزہ لینا پڑے گا’ خاص طور پر ملکی سلامتی کے ادارے کو’ جس سے تعلق رکھنے والے لوگ ملکی سرحدوں اور عوام کی جان و مال کومحفوظ بنانے کے لئے ہمیشہ اپنا خون دے کر قرض چکاتے ہیں ‘ ان کو نامناسب ناموں اور القابات سے یادکرکے ادارے کے مجموعی مورال کو گرانے کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے ؟ کوئی بھی قومی ادارہ ہو’ آئین میں اس کے بارے میں صراحت سے اس کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے ‘ ماضی میں اگر کسی ادارے نے بوجوہ اپنی حدود سے تجاوز کرکے ملکی معاملات میں مداخلت کی ہے اور اس کا احساس ہونے کے بعد بحیثیت مجموعی اب خود کو آئینی حدود کی پابندی کے لئے تیار ہے تو اس صورتحال کو ملکی مفادات کے عین مطابق سمجھتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے نہ کہ کوئی بھی شخص یا جماعت اس پر ادارے کو تنقید کی سان پر رکھتے ہوئے اس کی تضحیک کرے ۔ ملکی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ اگر ہم سب اپنے اپنی حدود میں رہیں تو ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم