آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

سابق وزیراعظم عمران خان کے لانگ مارچ سے ایک دن قبل ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے جواب میں تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنمائوں کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے کوئی غیرآئینی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا سیاست میں کردار ہے اسی لئے ہم نے ان سے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل آزادانہ الیکشن ہیں۔ انتخابات کے لئے فوج سے بات کرنا کیسے غیرآئینی ہوگیا۔ ایک ہی پریس کانفرنس میں پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین اور سیکرٹری جنرل کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتوں اور ہونے والی گفتگو کے حوالے سے دو مختلف خیالات حیران کن ہیں اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 4بڑے رہنمائوں کی پریس کانفرنس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش والی بات پر کہا گیا کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی جبکہ گزشتہ روز ہی عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا کہ انہوں نے آرمی چیف سے کہا تھا کہ اگر پی ڈی ایم کی طرف سے آفر ہے تو ہم آپ کو توسیع دے دیتے ہیں۔ انہوں نے ایوان صدر میں آرمی چیف سے اپنی ملاقات کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ ڈگی میں بیٹھ کے جانے والوں میں سے نہیں۔ ڈگی میں بیٹھ کر جانے والی پھبتی کستے ہوئے غالبا انہیں یاد نہیں رہا کہ ان کے نئے اتحادی اعجازالحق اپنے اس دعوی پر معذرت کرچکے ہیں۔ ایوان صدر میں ملاقات کے ساتھ اگر وہ ایف ایٹ میں ہوئی ایک ملاقات کا بھی اعتراف کرلیتے تو مناسب رہتا۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ وہ سول ہو یا ملٹری، اس کے ذمہ داروں سے سیاسی رہنمائوں کی ملاقاتیں ہمارے سیاسی حالات اور تاریخ کے پس منظر میں غلط نہیں البتہ جس مغربی جمہوریت کی عمران خان مثالیں دیتے ہوئے یہ کہتے رہتے ہیں کہ اسے مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کیا اس مغربی جمہوریت میں کوئی اپوزیشن لیڈر آرمی چیف سے یہ درخواست کرتا ہے کہ فوج ملک میں الیکشن کروا دے ؟ یا کوئی وزیراعظم اپنے ملک کی بڑی ایجنسی کے سربراہ سے قانون سازی کے لئے ارکان پورے کرنے کی فرمائش کرتا ہے؟ پاکستان کے سیاسی عمل کی تاریخ جوبھی رہی ہو تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں کی ضرورت مند رہتی ہے۔ خود عمران خان پچھلے چھ ماہ سے تواتر کے ساتھ یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں اسلام اور قرآن غیرجانبداری کی اجازت نہیں دیتے اسٹیبلشمنٹ ان کے مخالفین سے نمٹنے کے لئے ان کی مدد کرے۔ چند دن قبل وہ ان اخباری خبروں کی تردید کررہے تھے کہ انہوں نے مارچ میں آرمی چیف کو توسیع دینے کی کوئی پیشکش کی۔ گزشتہ روز ان کے رفقا نے بھی یہی موقف اپنایا لیکن اسی شام انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں نہ صرف توسیع کی پیشکش کا اعتراف کیا بلکہ وہ وجہ بھی بیان کی جس پر انہوں نے پیشکش کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر مارچ میں آرمی چیف اس وقت کے وزیراعظم کی جانب سے مزید تین سال کی مدت کے لئے توسیع قبول کرلیتے تو کیا پھر سائفر ڈرامے اور غدار و میر جعفر میر صادق اور جانور جیسے توہین آمیز الزامات کی جگہ دادوتحسین سے بھرے کلمات لے لیتے؟گزشتہ سے پیوستہ روز ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی ایس آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ عمران خان نے تاحیات توسیع کی پیشکش کی جبکہ اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا سابق وزیراعظم اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے اور اپوزیشن کے خلاف کارروائی میں فوج کے تعاون کے طلبگار تھے لیکن ان پر واضح کیا گیا کہ فوج آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرے گی۔ عمران خان کو اس امر کی وضاحت بھی کرنی چاہیے کہ ان پر ان کے خاندان کے بعض افراد اور کابینہ کے ارکان پر کرپشن اختیارات سے تجاوز اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور صدارتی فرمان کے ذریعے سنگین جرائم میں ملوث ٹی ٹی پی کے سو سے زائد افراد کو رہا کرنے کے جو سنگین الزامات ہیں ان کی موجودگی میں وہ کیسے کسی اور کے خلاف الزامات عائد کرنے اور ان کے لئے معاشرے میں نفرت بھی فضا بناتے ہیں؟ ہماری دانست میں گزشتہ 6ماہ کے دوران ان کی جماعت کے سوشل میڈیا سیل، کارکنوں اور ہمدردوں نے ریاستی اداروں اور مخالفین کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈہ کیا اس کی کیا وضاحت کی جائے گی نیز یہ کہ کیا یہ غلط ہے کہ ان کے دور اقتدار میں نیب اور اینٹی کرپشن نے پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کو حکومتی دبائو پر کلین چٹ دی۔ عمران خان اور ان کے رفقا نے امریکی سازش کے مبینہ بیانیہ کی بنیاد پر فوج اور عوام میں جو دوریاں پیدا کیں ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ روز دو عسکری محکموں کے سربراہوں کی پریس کانفرنس میں ان کی خواہشات و ترجیحات کی جو تفصیل بتائی گئی وہ اگر صرف 10فیصد بھی درست ہوں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنے مخالفین کو فکس اپ کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اس سوچ سے سیاسی عمل کو کتنا نقصان ہوا اور 9اپریل کے بعد ان کے انداز تکلم نے نفرتوں کے جو بیج بوئے اب اس کی فصل تیار ہوچکی ہے۔ بلاشبہ اس امر پر دو آرا ممکن ہی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی عمل میں کوئی کردار نہیں ہوتا یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر تنقید کرتی ہیں لیکن عملی طور پر ہر جماعت حصول اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی طلبگار رہتی ہے ۔ عمران خان بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔ ایک سے زائد بار وہ عوامی جلسوں میں صاف کہہ چکے ہیں کہ اگر غلطی کا احساس ہوگیا ہے تو ازالہ کریں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی ہے کہ مجھے کسی طریقے سے دوبارہ اقتدار میں لائیں۔ عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں کو دو رخی چھوڑ کر سیدھے سبھائو سیاست کرنی چاہیے۔ پریس کانفرنسوں کے حالیہ ملاکھڑے اور الزامات در الزامات سے بنی فضا کے خاتمے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان یا کسی اور سیاسی شخصیت کو سیاسی جدوجہد اور عوام کے سامنے اپنا سیاسی پروگرام اور تعمیروترقی کا منشور رکھنے کا حق ہے لیکن سیاسی جدوجہد سے انتشار اور تصادم کا دروازہ کھولنے سے اجتناب برتا جانا چاہیے۔ سابق وزیراعظم کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک میں تنہا محب وطن اور باقی غدار ہرگز نہیں۔ حب الوطنی کی دھمال اور غداری کے الزامات سے بنے سیاسی ماحول نے ماضی میں بھی ملک کو کچھ نہیں دیا۔ بہتر ہوگا کہ سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے۔ سابق وزیراعظم اگر مگر کے بغیر عوام کو یہ ضرور بتائیں کہ انہوں نے اور ان کے رفقا نے فوج پر اپنے حق میں کردار ادا کرنے کے دبائو اور ترغیبات میں ناکامی کے بعد عسکری قیادت پر سنگین الزام تراشی کیوں کی اور یہ کہ امریکی سازش کے مبینہ سہولت کاروں سے ملاقاتوں کا کیا جواز ہے۔ کیا اگر یہ مبینہ سہولت کار ان کی مدد پر آمادہ ہوجاتے تو پھر وہ محب وطن قرار دے دیئے جاتے؟

مزید پڑھیں:  اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر