کاروان عمران خان، آگے کیا؟

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کے جیالے لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ عمران خان کے مطابق حقیقی آزادی لانگ مارچ کے شرکاء آٹھ سے نو دن تک دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہونگے۔ ابھی تک یہ پوری طرح سے واضح نہیں ہے کہ اسلام آباد جاکر لانگ مارچ کے منتظمین کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ گوکہ پارٹی کے اعلیٰ کمان نے کارکنان کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ پندرہ دن کا زاد راہ ہمراہ لے آئیں ۔ پارٹی قیادت نے اس حوالے سے قومی، صوبائی اور سینٹ ممبران کو بھی واضح ہدایات جاری کردی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کم از کم دو ہزار افراد ساتھ لے آئیں اور اسکے اخراجات بھی خود اٹھائیں لیکن اس کے باوجود یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قافلے اسلام آباد پہنچ کر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرکے واپس چلے جائینگے یا اپنے مطالبات منوانے تک اسلام آباد میں دھرنا بھی دینگے۔ پارٹی قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ حکومت مظاہرین کے آگے گھٹنے ٹیک کر اپنی سیاسی موت کا سامان ہر گز نہیں کرنا چاہینگی۔ دوسری طرف عمران خان دوہزار چودہ اور سترہ میں دھرنوں کی شکل میں اپنی سیاسی قوت کے مظاہرے کرکے اس قسم کے بے سود تجربے کرچکے ہیں۔ دوہزار چودہ میں 126 دن کا دھرنا عمران خان کو بغیر کسی مطالبے کے منوائے ختم کرنا پڑا۔ اسی سال مئی میں بھی عمران خان ایک ناکام تجربہ کرکے دیکھ چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سارے ناکام تجربے عمران خان اور پارٹی کی دیگر قیادت کے ذہنوں میں تازہ ہیں تو پھر اس نئے دھرنے میں ایسی کونسی خاص بات ہے جس سے پارٹی کی قیادت اور کارکنان امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔گوکہ پارٹی قیادت سیاسی بیانات میں پر امن احتجاج کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے طاقت کا استعمال ہو ا تو مظاہرین اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کا حق محفوط رکھتے ہیں۔عمران خان کے بیانا ت سے واضح طور پرخون کی بو آتی ہے۔ ایک حالیہ ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک انقلاب کا مشاہدہ کررہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ انقلاب عوام کے ووٹوں سے آئے گا یا یہ ایک خونی انقلاب ہوگا۔ دو روز قبل سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے سینیر رہنما فیصل واوڈا کو پارٹی سے اس لئے نکالا گیا کہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران موجودہ صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو لاشیں اور جنازے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ان کے خدشات کو ایک دوسرے سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈاپور کے اس ویڈیو بیان سے لاتعلق نہیں کیا جاسکتا جس میں انہوں نے ایک نامعلوم شخص سے مظاہرے میں اسلحہ لانے کے حوالے سے گفتگو کی تھی اور جب یہ گفتگو منظر عام پر آئی تو موصوف نے واضح الفاظ میں حکومت کو پیغام دیا کہ اگر حکومت طاقت کا استعمال جانتی ہیں تو ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنیں۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے علی امین کے اس موقف کی تردید کرنے کی بجائے پارٹی کے اندر سے اس کی مکمل تائید کی جارہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر کامران خان بنگش نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ مظاہرین اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ان سارے بیانات کی روشنی میں پارٹی کے سینئر نائب صدر اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا گو کہ پارٹی پر امن سیاسی مظاہرے پر یقین رکھتی ہے لیکن اگر ان کے مطالبات کو نہیں مانا گیا تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کسی غیر آئینی اقدام کے حوالے سے سوال پر مختاط انداز اپناتے ہوئے اسد عمر نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ان کے باڈی لینگویج سے خوب پتہ چلتا تھا وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کے جیالوں کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے حکومت نے بھی اپنی تیاریا ں شروع کی ہیں۔ حکومت کو اس بات کا پوری طرح سے ادراک ہے کہ عمران خان کی کال پر لبیک کہتے ہوئے عوام ملک کے کونے کونے سے اسلام آباد پہنچیں گے۔ ایک طرف وہ مظاہرین کی تعداد پر نظر رکھتے ہوئے مسلسل اپنے پریس کانفرنسوں میں مظاہرے کی ناکامی پر درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ریڈ زون میں توسیع کرتے ہوئے مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں تین نومبر کوقومی اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا گیا ہے۔ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ ہم مظاہرے میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے لیکن دوسری طرف وزیر داخلہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے اس ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اس بارے میں ابھی کچھ کہنا تو قبل از وقت ہوگا لیکن موجودہ حالات وواقعات جس خطرے کی نشاندہی کررہی ہیں وہ کسی بھی صورت ملک اور ملک کے عوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔ خدا کرے میری یہ رائے غلط ثابت ہو لیکن مجھے مستقبل سے خون کی بو آنے لگی ہے۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!