سیاسی مخمصہ

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کے خاتمے کے لئے مصالحت اسٹیبلشمنٹ کرواسکتی ہے کیونکہ حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے۔ جن کے پاس طاقت ہے، ان کو فیصلہ کرنا چاہئے۔قبل ازیں گوجرنوالہ میں لانگ مارچ سے خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ ہم ایک انقلاب کی جانب گامزن ہیں۔ہم اسلام آباد دھرنادینے نہیں جہادکیلئے جارہے ہیں،اسلام آباد پہنچ کر پورے ملک کے عوام کوکال دوں گا،عوام موٹرسائیکل پرآئیںیاسائیکل پراسلام آباد پہنچیں۔دریں اثناء وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ فسادیوں اور انتشار پھیلانے والوں کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ وہ لوگ ہیں جو اس فتنہ کی وجہ سے گمراہ ہو چکے ہیںرانا ثنا نے کہا کہ امن و امان کو برقرار رکھنا اور لوگوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، پی ٹی آئی کے لوگ مسلح جتھے لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہورہے ہیں، علی امین گنڈا پور اسلحہ لے کر لانگ مارچ کے ذریعے آرہے ہیں، فساد کرنے اور انتشار پھیلانے والوں کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔اگر مسلح لوگ آئے پولیس اوردیگر فورسزکوبھی صرف آنسوگیس کے شیل اورربڑکی گولیاں نہیں اسلحہ سے لیس رکھنا پڑے گا۔ساتھ ہی ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ و جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ ٹھس ہو چکا ہے پی ٹی آئی والے اسلام آباد پر مسلح چڑھائی کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کے وزراء اور پارٹی کی موثر قوتیں خود ایسی باتیں کر رہے ہیں جن سے یہ تاثر قائم ہو رہا ہے جیسے پی ٹی آئی ایک دہشت گرد تنظیم ہو اور وہ حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہولیکن حکومت ملک کی عزت اور ناموس پر کوئی سمجھوتہ کر نے کو تیار نہیںجس قسم کی تیاریاں اور اور بیان بازی ہو رہی ہے بعید نہیں کہ تصادم ہو البتہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں کا محاورہ بھی بادلوں کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں پر بھی صادق آسکتا ہے بھڑک مارنے کو سیاست کا نام دیا گیا ہے بہرحال حالات و واقعات کے تناظر میں تحریک انصاف کے چیئرمین جس حقیقی آزادی مارچ او راسلام آباد آکر جو کچھ منوانا چاہتے ہیں اس حوالے سے اتنے عرصے بعد بھی واضح طور پر یہ بات سامنے نہیں آسکی کہ وہ کس خاص مقصد کا حصول چاہتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قبل از وقت انتخابات کرانے سے قوم حقیقی طور پر آزاد ہو گی اور اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا قیام ہی کو حقیقی آزادی کی منزل سمجھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کا سال بھی نہیں گزرا کیا سال قبل عوام حقیقی طور پر آزاد تھی اور پھر غلامی کے اندھیروں میں چلی گئی اور اگر آزاد نہیں ہوئی تھی تواپنے دور حکومت میں قوم کی آزادی کے لئے کیوں عملی اقدامات نہ کئے گئے تحریک انصاف وہ وعدے اوردعوے کیوں پوری نہ کرسکی جس کا طمطراق سے وہ اعلان اور دعوے کرتی رہی۔تحریک انصاف کو اگر دبائو بڑھانے پر سیاسی مذاکرات کی امید تھی تو اسی حوالے سے مسلم لیگ کے قائد نواز شریف اور پی ڈی ایم کے سربراہ کی جانب سے کورا سا جواب مل گیا ہے اب سیاسی مذاکرات کاکوئی امکان نظر نہیں آتا حکومت اور اتحادی جماعتوں نے واضح طور پر کسی دبائو میں نہ آنے اور مذاکرات نہ کرنے کاعملی الاعلان کہہ دیا ہے دوسری جانب ایک ممکنہ دبائو سپہ سالار کی تقرری کا ہے اس ضمن میں وزیر اعظم کسی کی بھی مشاورت کے پابند نہیں اگر انہوں نے اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں سے اس ضمن میں درون خانہ کوئی گفتگو کی بھی ہو تو وہ بھی تبادلہ خیال کی حد تک ہی سمجھی جائے گی نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کا کلی اختیار ہے اس ضمن میں نہ تو مذاکرات و مشاورت ہوسکتی ہے اور نہ ہی دبائو ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ دبائو ڈالنے کا حامل معاملہ ہے ایسے میں اس حوالے سے بھی دبائو ڈالنے کی سعی لاحاصل ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ اس اہم ترین تقرری کا وقت آگیا ہے قیاس ہے کہ وزیر اعظم چین کے دورے سے واپسی کے ایک ہفتے کے اندر اس حوالے سے رسمی کارروائی شروع ہوگی تحریک انصاف کی قیادت کاکوئی ٹھوس موقف بھی سامنے نہیں آتا باوجود اس کے کہ اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر غیر جانبداری اور کام سے کام رکھنے کا اعلیٰ سطح پر واضح اعلان کر چکی ہے اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ہی سے امیدیں اور حکومت کو بے بس قرار دینے کی منطق سمجھ سے بالاتر امر ہے جہاں مذاکرات و مفاہمت اور امکانات کے سارے دروازے یقینی طورپر بند ہوں او رپھر بھی دبائو ڈالنے اور دبائو بڑھانے کے حربے اختیار ہو رہے ہوں اور بعض عناصر کی جانب سے کچھ غیر معمولی سرگرمیوں کا بھی عندیہ ملتا ہوایسے میں ایک اہم تقرری کے عین موقع پر اسلام آبادمیں حالات کی خرابی کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے جاری حالات میں عدالت ہی مداخلت کرکے یا عدالت سے رجوع کرکے کوئی مناسب ہدایت لینے کاحربہ اور چارہ رہ گیا ہے عدالت کی جانب سے قبل ازیں بھی مارچ کے پرامن اختتام کے حوالے سے کردار موجود ہے جس پر اگرچہ من و عن عمل نہیں کیا گیا مگر بہرحال یہی ایک راستہ نظر آتا ہے مشکل امر یہ ہے کہ فیس سیونگ کے امکانات بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ فیس سیونگ دراصل ہوتی ناکامی ہی ہے صرف اسے دوسرے لفظوں میں پکارا جاتا ہے سیاسی عناصر سے خواہ وہ حکومت میں ہیں یا سڑکوں پر کسی خیر کی توقع نہیں اسٹیبلشمنٹ بھی اب عملی طور پر اپنی غیر جانبداری کے کردار میں سنجیدہ ہے ایسے میں یاتو سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہو گا یا پھر عدالت ہی سے اس کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان