بیانیہ یا پراپیگنڈہ؟

ایک عرصہ سے میں بتانے میں ناکام رہا ہوں کہ”بیانیہ”اور”پراپیگنڈے”میں بہت فرق ہے۔ بیانیہ کسی بھی فرد، گروہ یا جماعت کی بنیادی پالیسی کا اظہار ہے۔ پراپیگنڈہ کسی بھی ایشو پر کسی فرد، گروہ یا جماعت کی ترجیحات کا اظہار ہے۔ مثلاً تحریک انصاف کا اصولی موقف ہے کہ یہ جماعت انصاف کے لئے عوامی مطالبات حال کرے گی۔ یہ ان کا بیانیہ ہے جب کہ ن لیگ نے عدالتوں کو کرپٹ کہا یہ تحریک انصاف کا پراپیگنڈہ ہے۔اب اگر غور سے دیکھیں تو تمام بیانیے پراپیگنڈے میں گم ہو چکے ہیں۔ بڑے بڑے صحافی پراپیگنڈے کے لئے بیانیے کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔اس سے وہ خود ہی سیاسی جماعتوں کی شکل میں موجود جمہوری اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔ جہاں تک پراپیگنڈے کی بات ہے تو اداکار اور اداکارائیں ہمارے ہاں اینکرز بن کر تبصرے فرما رہے ہیں۔ پروڈیوسر اور ریسرچر کی شکل میں آٹومیٹک گاڑیاں دستیاب ہیں۔ بس دیکھا کہ ٹوئیٹر پر کیا ٹرینڈ چل رہا ہے اور اس طرح دو تین روبوٹک مہمان بلا کر شو ٹھوک کر ریٹنگ کا انتظار کرنے لگے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میڈیا پر کچھ نیا دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ چونکہ یہ لوگ ایک لمحہ کے لئے بھی پڑھنے یہاں تک کہ سوچنے کے لئے فارغ نہیں ہیں اس لئے خود ہی فارغ ہوچکے ہیں۔
موجودہ پراپیگنڈہ جنگ کوئی معمولی پراپیگنڈہ جنگ نہیں ہے۔ یہ جنگ امریکہ، برطانیہ، ہندوستان یہاں تک کہ ترکی میں بھی اسی انداز سے جاری ہے۔ یہ بات بھی نہیں کی یہ خود بہ خود شروع ہوئی اور کسی سوچ سمجھ کے بغیر چل رہی ہے۔ نہیں بھائی!اس پر خوب سوچا گیا۔ اس کو باقاعدہ ڈیزائین کیا گیا اور پھر اس پر سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دی گئی۔مثلا حالیہ دور کے پراپیگنڈوں کی بنیاد ارسطو کی Fallacy کے نظریئے پر ہے۔ اس کو جدید دور میں Logical Fallacies کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یوں کہئے جیسے تخیلاتی دلائل۔ جب بھی آپ کسی نظریاتی یا سیاسی بحث میں حصہ لیتے ہیں ایک عام شہری کی حیثیت سے یا خصوصاً ایک صحافی کی حیثیت سے تو اس بحث میں مخالف فریق یہ اوزار استعمال کر سکتا ہے۔ یہ مختلف طرح کا ہو سکتا ہے جس کے باقاعدہ نام، ضرورت اور مقاصد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا اس کی پندرہ اقسام ہیں۔ایک دفعہ آپ نے ان کو سمجھ لیا تو پھر دوران بحث فوراً آپ سمجھ جاتے ہیں کہ اب یہ کون سی Logical Fallacy ہے اور بیان کرنے والے کا مقصد کیا ہے اور یہ کہاں پکڑا جا سکتا ہے۔ کمال کی بات یہ کہ اس کا استعمال امریکہ میں ٹرمپ، ترکی میں اردگان، ہندوستان میں مودی اور پاکستان میں عمران خان کے حمایتی دھڑلے سے کر رہے ہیں۔ امریکہ میں آگہی کے باعث یہ کمزور ہو چکا ہے۔ ہندوستان میں اب لوگ اس طریقہ واردات کو پکڑ چکے ہیں۔ اس میں ایک طریقہ تو Strawman Argument کا ہے جس کا دیسی مطلب سوال گندم جواب چنا ہے۔ دوسرے کو Red Herring کہتے ہیں۔ اس کا مطلب بحث کی توجہ ایک بالکل ہی غیرمتعلقہ چیز کی طرف کروانا ہوتا ہے۔ مثلاً بات ہو رہی ہو میاں نواز شریف کے لندن خطاب پر اور یکدم کہا کہ عمران خان نے بچوں کی قربانی دے دی اس ملک کی خاطر اور دیگر جذباتی جواز بیان کئے جائیں ۔ تیسرا ہے Slippery Slope یعنی آہستہ آہستہ ایک راستے پر آپ کو گامزن کیا جائے۔ اسی کے تسلسل میں چوتھا طریقہ ہے False Dichotomy کا یعنی آخر میں آپ کو دو ہی آپشن دیئے جائیں۔ کہ بس یا تو فوج یا عمران خان یعنی اس کے علاوہ اور کوئی قوت میدان میں ہے ہی نہیں۔پانچواں ہے Circular Argument جیسے سادہ زبان میں گھما گھما کر وہی بات کہنا ہوتا ہے۔ بار بار ایک ہی جگہ سوئی اٹکائی جاتی ہے کہ عمران کو کیا ضرورت ہے اس کے پاس تو خزانے ہیں۔ اس کی اولاد تو امیر ہے۔ باقی تو سارے کرپٹ ہیں۔ سب اپنی اولاد کو بچا رہے ہیں۔Loaded Questions کا چھٹا طریقہ وہ ہے کہ جس میں آپ کو آپشن بھی نہیں دیا جاتا۔ جیسے کہ مرحوم جنرل ضیاء کا ریفرنڈم اگر آپ ملک میں اسلام چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے جنرل محمد ضیاء الحق کو ملک کی سربراہی کا ووٹ دے دیا ۔ یہ سوال آج یوں ہو سکتا ہے کہ کیا آپ مدینہ کی ریاست چاہتے ہیں؟اگر ہاں تو بس ٹھیک ہے آپ عمران خان کو ماننے والے ہیں۔اب کون بدبخت ہوگا جو ناں کرے گا۔ساتواں ہتھیار ان کا Appeal to Ignorance ہوسکتا ہے۔ یعنی کسی کو علم نہیں کہ کیا ہوا تھا اور مخالف دعویٰ کرے کہ یہ ہوا تھا۔ جیسے تحریک انصاف کے مخالف یہ دعویٰ کریں کہ صیہونی طاقتوں نے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ عمران خان کو پاکستان کا حکمران بنانا ہے۔ اب صیہونی طاقتیں کون ہیں؟ کہاں بیٹھتی ہیں؟ کب یہ فیصلہ ہوا؟ کس سے کنفرم کیا جائے؟ بس چونکہ کسی چیز کے بارے میں عوام کو علم نا ہو اور اس کے بارے میں یقین کے ساتھ دعویٰ کیا جائے۔ Hasty Generalization وہ آٹھواں ہتھیار ہے کہ جس کا استعمال تو سب افراد اور جماعتیں کرتی ہیں۔ اسی کے لگ بھگ نواں ہتھیار Appeal to Hypocrisy کی ہے جس میں چور خود چوری کا جواز پیش کرتا ہے۔دسواں ہتھیار Sunk Cost کا ہے۔ یعنی اب تو اتنا عرصہ اس غلط راستے پر چل نکلے ہیں اب کیا راستہ بدلنا۔ یعنی ہم غلط ہیں لیکن باقی کونسے دودھ کے دھلے ہیں اور آپ جھانسے میں آ کر کہتے ہیں۔ ”ہاں یہ بھی ٹھیک کہا”۔گیارھواں ہتھیار Ad Hominem کا ہے۔ جب سارے جواز اور دلیل ختم ہو جائیں اور مخالف ذاتیات پر اتر آئے۔ یہاں تک کہ مارپیٹ بھی کر لے اور اپنی مارپیٹ کو بھی دوسرے کی غلطی مان کر چلے۔ یہ جو شوز میں تلخ کلامی یا سیاسی مقامات پر مار پیٹ ہوتی ہے وہ بلاوجہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے بھی پراپیگنڈہ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ ہتھیار ہمارے ہاں بدقسمتی سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ باقی چار ہتھیاروں کے حوالہ سے پھر کبھی بات کریں گے۔ جگہ کی کمی کے باعث اب بیاں کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن وعدہ کیجیئے کہ آئندہ بحث کے دوران ان ہتھیاروں کا استعمال آپ نے نا صرف نوٹ کرنا ہے بلکہ روک کر بتانا بھی ہے کہ یہ کس کیٹگری کا ہتھیار استعمال ہو رہا ہے اور بولنے والا خود کیسے استعمال ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں