صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن

دو نومبر کو پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کاعالمی دن منایا گیا۔اس بار اس دن کو ارشد شریف شہید کے نام منسوب کردیاگیاتھا جسے حال ہی میں کینیا میں شہید کردیا گیا۔ اسی دن کی مناسبت سے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ارشد شریف شہید کے حوالے سے ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔ اس تقریب میں صحافیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی لیکن بد قسمتی سے اے آر وائی ٹی وی چینل کے کاشف عباسی اور خاور گھمن کے علاوہ کسی بھی بڑے چینل کے کسی بھی بڑے اینکر پرسن نے مرحوم صحافی کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کے لئے آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جو کہ صحافی برادری کے درمیان موجودہ پولرائیزیشن کا واضح مظہر ہے۔صحافی برادری کو سیاسی وابستگی اور کسی بھی مخصوص سیاسی بیانیے سے اختلاف یا اتفاق کرنے کا بھر پور حق حاصل ہے لیکن ان اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جاکر اصولوں اور اپنے مشن کے بنیادی اہداف پر سودے بازی کرنا کسی بھی طرح سے دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج صحافیوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دو ہزار چھ سے لے کر دوہزار بیس تک پوری دنیا میں بارہ سوصحافی مارے جاچکے ہیں جس میں تقریباً سو کے قریب وطن عزیز میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہرد س میں سے نو کے متعلق عدالتی تحقیقات مکمل نہیں کی جاسکی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافی کسی بھی معاشرے کا ایک باشعور طبقہ ہوتا ہے اور ان کا ہاتھ معاشرے کے نبض پر ہوتا ہے۔ انہیں اپنے معاشرے کے تلخ وشیریں حقائق کا ادراک بھی ہوتا ہے اور ان کے حل کا شعور بھی اور عوام انہی کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ صحافی برادری جہاں اپنے حقوق کے لئے ایک بینر تلے جمع نہیں ہو سکتیں وہاں وہ اپنے ملک کے بوسیدہ نظام پر تیشہ بن کر کیسے وار کرسکیں گی اور اس کے تراشیدہ ناخدائوں کے سامنے کلمہ حق کیسے بلند کر سکیں گی۔اس گھنائونے کھیل میں جہاں سیاسی پارٹیوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطرصحافی برادری کو تقسیم کئے رکھا ہے وہاں میڈیا مالکان بھی اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لئے میڈیا ورکرز کا استحصال کرکے ان کے خون پسینے سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا ورکرز کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ پھر وہ اپنے آقائوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر چار وناچار اپنے چینلز کی ریٹنگز کو بڑھانے کے لئے وہ سب کچھ کرتے ہیں جو اسے کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ میڈیا نے ہی عوام کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس سے کہیں ذیادہ ابتر صورتحال ان ڈسٹرکٹ رپورٹرز کی ہے جو بلا معاوضہ اپنے جان کو جوکھوں میں ڈال کر چینلز کے لئے خبریں بھی پیدا کرتے ہیں اور اشتہارات بھی۔ اکثر اوقات ان کی خبروں کی چھپائی حتیٰ کہ ان کی نوکری کے تسلسل کو بھی اشتہارات کی فراہمی سے مشروط کیا جاتا ہے۔ اکثر میڈیا ہائوسز تو ان سے اشتہارات کے علاوہ مال پیدا کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں ۔ یہ صورتحال ان میڈیا نمائندگان کے لئے اور بھی پریشان کن ہے جو جنگ زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ضم اضلاع میں وہاں کے صحافیوں سے کھل کر بات کرنے کا موقع ملا۔یہاں اکثر وبیشتر صحافیوں کی کوئی پیشہ ورانہ تربیت نہیں ہوتی ۔اصولاً تو ان سارے صحافیوں کو ہوسٹائل انوائرنمنٹ(ناموافق حالات)میں رپورٹنگ کرنے کے تما م لازمہ اور مسلمہ تربیتی امور سے شناسائی اور مکمل شعور ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے تربیت تو درکنار ان کی مطلوبہ تعلیمی صلاحیت بھی نہیں ہوتی جس سے بیشتر اوقات وہ تشدد کی زد میں آتے ہیں ۔زیادہ تر صحافی جدید صحافت کے اصطلاحات سے ناواقف ہیں۔ ان کی باقاعدہ کوئی تنخواہ نہیں ہوتی بلکہ الٹا ان کو ایک خاص رقم بطور ضمانت میڈیا ہائوسز کے پاس رکھنا پڑتا ہے۔ ان کو نہ تو ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت میسر ہوتی ہے اور نہ ہی ٹیلی فون کرنے کی، ان کو خبر بنانے کے لئے اپنے تئیں کمپیوٹر اور سمارٹ فون کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ پریس کلب کے اخراجات اٹھانے کے لئے منتظمین کو یا تو حکومتی اداروں سے پیسہ لینا پڑتا ہے یا پھر دوسرے ذرائع سے رقم اکٹھا کرنا پڑتا ہے جس سے لامحالہ آزاد صحافت کا تصور بھی محال ہوجاتا ہے۔ضم اضلاع میں اکثر پریس کلبز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ آڈیو وڈیو لائبریری، کمپیوٹرز، کیمرے، لائبریریز اور نیوز روم وغیرہ تو درکنار اکثر پریس کلبوں میں فرنیچر، لائٹس اور پینے کے پانی کا بھی معقول انتظام نہیں ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار جمہوری معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ وہاں پر بنیادی انسانی حقوق کا بھر پور تحفط ہو۔ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ازحد ضروری ہے کہ اس معاشرے میں صحافت آزاد ہواور آزاد صحافت صرف اسی معاشرے میں ممکن ہے جہاں صحافت کے علمبرداروں کے تحفط کو یقینی بنا یا جائے اور یہ صرف اور صرف اس وقت ممکن ہوسکے گا جب صحافی برادری خود اس کے لئے یک زبان ہوکر آواز بلند کرے۔

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ