ملک کو نہ جلائیں

پاکستان میں سیاست کی تاریخ نفرت اور کڑواہٹ سے بھری پڑی ہے، ملک میں ہر سیاسی جماعت کے کارکنان اپنے قائد کے خلاف کوئی بھی بات سننا گہوارہ نہیں کرتے ہیں، دوسری طرف تنقید کرنے والے بھی اصلاح برائے تنقید کی بجائے ایسے بے ہودہ الزامات اور نازیبا و ناشائستہ انداز اختیار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بات سیاسی اختلاف سے نکل کر دشمنی و عداوت تک پہنچ جاتی ہے، ہمارے ہاں بدقسمتی سے بزور طاقت مخالف کی آواز بند کرنے کی روایت پائی جاتی ہے، خاں لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو اور عمران خان پر حملے تک کے پیچھے یہی سوچ کار فرما دکھائی دیتی ہے، سیاسی قائدین پر حملے قابل مذمت ہیں تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی جلسوں کے سٹیج سے ”جلا دو،مار دو” کے نعرے لگا کر ملک میں انارکی و انتشار پھیلانے کی واضح ہدایت دی جاتی ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر فائرنگ کے افسوناک واقعہ کی ہر سطح پر مذمت کی جا رہی ہے، حتیٰ کہ ان کے سیاسی حریف و سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، مریم نواز، سابق صدر آصف علی زرداری، پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو،جے یو آئی (ایف ) کے امیر مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے اس واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے عمران خان کی جلد صحت یابی کے لئے دعا بھی کی ہے، دوسری طرف واقعہ کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے پارٹی کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان پر حملے کا بدلہ لیا جائے گا، یہ سوچ دراصل ملک کو انتشار کی طرف لے جانے کا باعث بنتی ہے اور ادنیٰ سوچ کے حامل کارکنان پر تشدد واقعات پر اتر آتے ہیں، 2007ء میں لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا تو پورے ملک میں آگ لگا دی گئی، لاہور، کراچی، اور راولپنڈی سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، صورتحال یہ پیدا ہو گئی تھی کہ لوگوں کی کھڑی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، بازاروں کو لوٹ لیا گیا، یہاں تک کہ بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کو توڑ کر ان سے پیسے نکال لیے گئے، جو لوگ سفر کر رہے تھے اور حالات سے بے خبر تھے ان کے لئے سفر جاری رکھنا مشکل ہو گیا تھا، ہمارے ایک دوست بھی سفر میں تھے انہوں نے فون کر کے پوچھا کہ ملک میں کیا ہوا ہے کہ افراتفری پھیل گئی ہے، ہم نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیااور مشورہ دیا کہ آپ سفر کو موقوف کر کے کسی جگہ پناہ لے سکتے ہیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنی جان بچائی، آصف علی زرداری سے آپ لاکھ سیاسی اختلاف کریں مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے
بعد انہوں نے اپنے غم اور دکھ پر ملک کو ترجیح دی اور ”پاکستان کھپے”کا نعرہ لگا کر ملک کو تباہ ہونے سے بچا لیا،اس وقت اگر آصف علی زرداری یہ نعرہ نہ بلند کرتے تو معلوم نہیں کہ ملک کا کتنا نقصان ہو چکا ہوتا۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیر آباد میں عمران خان پر فائرنگ کے بعد پاکستان تحریک انصاف قیادت دانشمندی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید ہوں یا اسد عمر، فواد چوہدری کس کا ذکر کیا جائے یہ پاکستان تحریک انصاف کے صف اول کے رہنما ہیں مگر انہوں نے ملک کو آگ لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، حالانکہ ایسے مواقع پر ہی سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے؟ عمران خان روبہ صحت ہیں، ڈاکٹرز ان کی حالت خطرے سے باہر بتا رہے ہیں، وہ مکمل طور پر بقائم ہوش و حواس میں ہیں، انہیں ایسا بیان جاری کرناچاہئے جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو، اس وقت خاموش رہنا، یا واقعہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کرنے کی کوشش کرنا ملک اور خود عمران خان کی سیاست کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو گا، آصف علی زرداری نے ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر خود کو تاریخ میں امر کر لیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے قائدین بھی اپنے آپ کو تاریخ میں امر کریں گے یا نہیں۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں