عوام ‘ سیاستدان اور پاک فوج

کسی بھی ملک اور ریاست میں بعض بنیادی اہمیت کے اداروں کی موجودگی اوران کی حفاظت کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق رائے کے علاوہ ایسی قانون سازی بھی ضروری ہوتی ہے ‘ جو ریڈ لائن کراس ہونے کی صورت میں خود بخود ایکشن میں آئے ۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود ہمارے ملک میں نہ توقانون و آئین پرعملدرآمد یقینی بنایاجا سکا۔ دراصل پاکستان کے قیام کے اہداف و مقاصد ابتدائی تین چار برسوں کے اندر اندر سیاستدانوں ‘ جرنیلوں اور عدلیہ کے منصفوں اور میڈیا وغیرہ کی آنکھوں سے اوجھل ہونے لگے ۔ بابائے قوم اور لیاقت علی خان کے بعد وطن عزیز میں ہر شعبہ زندگی میں جو ہیرا پھیری شروع ہوئی ‘ستر برس بعد موجودہ حالات اسی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے۔ لیکن ناظم الدین جیسا سیاستدان جو رول آف لاء پر یقین رکھنے کے ساتھ ایک محب وطن ‘ سادگی پسند اور کفایت شعار انسان تھا ‘شاہ برطانیہ کو قبول نہ تھا ‘لہٰذا پاکستان کی سیاست میں غلام محمد نام کا ایک بیورو کریٹ داخل ہوا اور پاکستانی سیاست میں بیرونی مداخلت اور بیورو کریسی کی یہ یہی فتح تھی یہاں یہ بات شاید بے جا نہ ہو کہ جب خواجہ ناظم الدین اور دیگر موثر افراد جو غلام محمد کو حلف دلا رہے تھے ‘ وہ فالج کے حملے کے سبب اتنے چڑ چڑے ہوگئے تھے کہ ان کی گفتگو اور کردار پر محبوط الحواسی کا گمان ہوتا تھا ۔ ان ایام میں وہ اپنا بیشتر وقت اپنی ایک غیر ملکی سیکرٹری روتھ بورل کے ساتھ گزارا کرتے تھے ‘ لیکن اس کے باوجود ان کو اقتدار کا شدید ہوس تھا ۔اس حوالے سے اکبرملک کی کتاب ” کہانی ایک قوم کی”قابل مطالعہ ہے ۔
برطانوی روایات کے مطابق پارلیمانی جمہوریت میں گورنر جنرل کاعہدہ نمائشی ہوتا ہے اور اختیارات کا منبع وزیر اعظم کی ذات تھی لیکن جب غلام محمد گورنر جنرل بنے تو برطانوی روایات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے کاروبار حکومت میں وزیر اعظم کے اختیارات میں مداخلت کرنے لگے اور پھر 1953ء میں ختم نبوت کی تحریک نے زور پکڑا تو کراچی میں مارشل لاء نافذ کیاگیا جس کے محرک سیکرٹری محکمہ دفاع میجر جنرل اسکندرمرزا تھے ۔یہ وہ وقت تھا کہ غلام محمد ‘ اسکندر مرزا اور بعض دیگر اتنے طاقتور ہو گئے تھے ‘ کہ نہایت اہم فیصلے وزیراعظم کو اعتماد میں لئے بغیر کر لئے جاتے تھے آگے جا کر غلام محمد اتناطاقتور بنا کہ خواجہ ناظم الدین اور اس کی کابینہ کو برطرف کردیا۔ وطن عزیزمیں یہ وہ سیاہ دن تھا جب ایک بیورو کریٹ نے ایک جنرل کی اشیرباد کے ساتھ ایک سیاستدان کاتختہ الٹاتھا۔ نیر نگئی سیاست دوران دیکھیں کہ اسی سیاہ رات میں محمد علی بوگرہ جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم بن گئے ۔ وہ دن اورآج کا دن مسلم لیگ اقتدار کے لئے بیورو کریسی اور جرنیلوں کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ‘ جنرل ضیاء الحق کی عقابی نگاہیں لاہور میں میاں نواز شریف کو ڈھونڈتی ہیں تو وہ سیاست میں جرنیل صاحب کے کندھوں پر سوار ہو کر ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کو مسلم لیگ نون کے نام سے سیاست میں لے آتے ہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم ‘ سہیل وڑائچ کی کتاب ”جرنیلوںکی سیاست” میں کہتے ہیں کہ ”عمران خان کو آئیڈیل لیڈر مانتے ہیں ‘ ضروری ہے کہ نئی قیادت ابھاری جائے کیونکہ ہماری پرانی قیادت ناکام ہوچکی ہے ۔ اس کا اندازہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے عیاں ہے ۔”جرنیلوںکی سیاست” میں لکھا ہے کہ نواز شریف کے لئے بریگیڈئر امتیاز کام کرتے رہے اور قاف لیگ اور پی پی پی کے لئے بریگیڈئر اعجاز شاہ ‘ بریگیڈئر امتیاز نے سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”نواز شریف کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق تھا اوروہ نواز شریف کے ساتھ اس حد تک جڑ چکے تھے کہ انہوں نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں۔ مشہور زمانہ آپریشن مڈ نائٹ جیکال اسی زمانے کی یادیں ہیں ‘ اسی الزام پربریگیڈئر امتیاز کو فوج سے فارغ کیا گیا تھا اور نوازشریف جب وزیر اعظم بنے تو ان کو آئی بی کا سربراہ بنا دیا۔
یہ چند واقعات حاصل مطالعہ سے آج کے حالات پر یاد آئے اور اس لئے سپرد قلم کئے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ شفاف ‘ غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات کاانعقاد کروا کر اقتدار مکمل طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کیاجائے تاکہ غریب عوام بھی کبھی اقتدار میں آکر اپنے بنیادی مسائل روٹی کپڑا مکان ‘تعلیم اور صحت کے لئے ضروری اقدامات کرسکیں۔گزشتہ ستربرسوں میں اسٹیبلشمنٹ نے بانس ہمیشہ اپنے ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھا اور سیاستدانوں کوکبھی بھی بانس تھامنے نہیں دیا۔ نتیجتاً بانس اور اس سے بنی بانسری دونوں اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہ کر سیاستدان اقتدار کی بھوک و پیاس مٹانے کے لئے اسی بانسری کے دھنوں پر ناچتے رہے جو وہاں سے بجائی جاتی رہی لیکن اب بانس اور بانسری کو نوجوان نسل کے حوالے کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔۔ کہ اس میں سب کی خیر اور عزت ہے اور اس کا آئینی اور محفوظ راستہ شفاف انتخابات ہیں اور کچھ بھی نہیں۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری