پاکستان ‘ دنیا کا عجیب و غریب ملک

قیام پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو برصغیر پاک وہند کے مسلمانوںکا بے مثال جذبہ’ ایثار اور یکجہتی کی اس زمانے میں مسلمان امت میں دور دور تک نظیر نہیں ملتی۔ تحریک پاکستان ‘ایک لحاظ سے تحریک خلافت کی راکھ اٹھتی چنگاریوں کا شعلہ جوالہ ہی تو تھا۔ 1924ء میں تقریباً عثمانی خلافت اتاترک کی تحریک جدیدیت (ماڈرنزم ) کی نذر ہو کر مسلمان عوام کی آہ وفریاد اورسسکیوں کے ساتھ دفن ہو چکی تھی اور اس کے نتیجے میں وسیع و عریض رقبے پرمشتمل ایک زبان ‘ ایک اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے عرب نیشن سٹیٹس بنانے پرفخر کرنے لگے تھے ۔ ترکی مغربیت میں لت پت ہونے کے لئے یوں بے قرار ہوا کہ غیور اتاترک کی اسلامیت قصہ پارینہ بن گئی۔ لیکن ان ہی ایام میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک عجیب و غریب بات یوں سوجھی کہ وہ زباں ‘ نسل اور علاقائی اور دیگر تفرقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اسلام کے نام پر یکجا ہوئے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ کی بنیاد پر اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا ملک وجود میں آیا۔
بابائے قوم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور علامہ محمد اقبال کی پرمغز شاعری کی روشنی میں پاکستان کے اہداف و مقاصد بہت اعلیٰ و ارفع قرار پائے ‘ قائد اعظم کی تقاریر سے اس عظیم ملک کے عظیم مقاصد بہت سادہ مگر پروقار و فہم و بلیغ انداز میں آج بھی اہل اقتدار کو وطن عزیز کے گھمبیر مسائل حل کرنے کا طریقہ و سلیقہ سکھانے کے لئے موجود ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم سے درجنوں بار پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا اور کیسا ہوگا؟ آپ کا جواب ہوتا”ہمیں کسی نئے دستور کی کیاضرورت ہے ہمارا دستور توچودہ سو برس قبل بن چکا ہے ‘ ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن وسنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے۔”
پاکستان کی تاریخ کے معروف سکالر و مورخ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم نے ایک سوبار اور قیام پاکستان کے بعد کم از کم چودہ بار بڑے واضح اور غیر مبہم انداز میں فرمایا تھا کہ ”پاکستان کے آئین نظام حکومت ‘ قانون اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی” ۔کاش ایسا ہوتا ۔ قائد اعظم کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر پوری دنیا کے لئے ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں مشعل راہ بن کر سامنے آئے ۔ چودہ اگست 1947ء سے لے کر 11ستمبر1948ء یعنی ایک سال ایک ماہ کے دوران سول بیورو کریٹس اورفوجی افسران کو بار بار اپنے فرائض سے آگاہ کیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے ”آپ(سرکاری ملازمین ) حاکم نہیں ہیں۔ آپ کاحکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے ۔ عوام الناس میں یہ احساس پیدا کر دیجئے کہ آپ ان کے خادم اور ان کے دوست ہیں”۔ قائد اعظم کی یہ باتیں سول اورملٹری افسران کے لئے ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہیں۔
آج پاکستان جس چوراہے پر کھڑا ہے اس میں جو طرفہ تماشا برپا ہے ‘ ایک دنیا اس کا تماشا کرنے میں لگی ہے ۔ ستر پچھتر فیصد عوامی اکثریت کی حامل اور پارلیمان میں 135 نشستوں والی جماعت سڑکوں پر احتجاج میں مشغول ہے اور ستاسی نشستوں والی تیرہ متضاد و مخالف پس منظر ‘ تاریخ اور ساخت رکھنے والی جماعتیں اقتدار پربراجمان ہیں۔
معلوم نہیں مورخ تاریخ پاکستان کا یہ باب کن الفاظ میں رقم کرے گا۔ وہ پاکستان جس میں ہم نے بھائی بھائی بن کر رہنا تھا۔ وہ پاکستان جس کو ہم ہندو ا کثریت کی غلامی سے آزاد رہنے کے لئے حاصل کیاتھا۔ وہ پاکستان جس میں ہر شہری کی جان مال آبرو کی حفاظت یقینی بنانا تھی آج پی ٹی آئی بمقابلہ پی ڈی ایم ایک دوسرے کو اس انداز میں نیچا دکھانے کے درپے ہیں کہ ملک و عوام کی حالت ناقابل بیان و ناگفتہ بہ ہے ۔ غضب خدا کا ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیاتھا کہ یہاں سیاسی جماعتیں اور پاک افواج ایک دوسرے پرالزامات لگا کر آمنے سامنے کھڑے ہوں گے۔ عوام بے چاری ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق کھڑی ہے ۔ عالمی میڈیا میںپاکستان کے سیاستدانوں ‘ وزرائے اعظم اور پارلیمنٹرینز کی ویڈیوز اور آڈویز سنائی جارہی ہیں اور پہلی دفعہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہم واقعی بنانا ری پبلک میں رہ رہے ہیں ۔ ستر سال کے بوھڑے کی نجی لمحات کی ویڈیو ان کی صاحبزادی کوبھیجی گئی ہے ۔کیا اب بھی ہم سب کے لئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں آیا ہے ۔ اب خیرسے خبر آئی ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں اور جرنیلوں کی خفیہ ریکارڈ بھارتی ہیکرزنے کی ہے ۔
بانی پاکستان جو سرکاری ملازمین(سول اور فوجی بیورو کریسی) کی آقائی ذہنیت کو رد کرتے ہوئے عوام کی حکمرانی کا درس دیتے تھے’ کو ہم نے آرمی ایمبولنس میں سڑک کے کنارے کسمپرسی کے عالم میں موت کے حوالے کیا اور اس کے ساتھ ہی ہم نے ان کے اعلیٰ افکار کوبھی ان کی میت کے ہمراہ تابوت میں بند کرکے سپرد خاک کیا ا للہ اللہ خیر صلا۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!