درست راستہ اختیار کرنے کا سنہری موقع

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)عمران خان نے ایک انٹرویو میںکہا ہے کہ سیاست سے فوج کا کردار مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، ان کی طاقت کا تعمیری استعمال ملک کو ادارہ جاتی بحران سے نکال سکتا ہے اگرچہ ان کے بہت سے حامی اب انہیں ایک نئے جمہوریت پسند سیاستدان کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو فوج اور سویلین حکومت کے درمیان تعلقات کے اصولوں کو دوبارہ وضع کرنا چاہتا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ انہیں ادارے کی طاقت اور اثر و رسوخ پر یقین ہے اور ان کا خیال ہے کہ حدود کے اندر رہتے ہوئے مثبت عمل دخل سے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیںعمران خان نے کہا کہ میں نے یہ جانا کہ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ نیب کو کنٹرول کرتی ہے اور جیسا چاہتی ہے اسے چلاتی ہے، اس کا مقصد سیاستدانوں کی کرپشن کی فائلیں رکھ کر انہیں کنٹرول کرنا ہے، وہ کبھی کسی کو دبوچ لیتے ہیںدریںاثناء شاہ محمود قریشی نے اداروں کے اختیارات سے متعلق پی ٹی آئی کے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان کو رد نہیں کیا۔پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اداروں کے اختیارات کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت اس سلسلے میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرسکتی ہے۔ لاہور میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے غیر رسمی ملاقات میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے دیگر ملکوں میں ڈیپ سٹیٹ موجود ہوتی ہے اور سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتی ہے، لیکن یہ مداخلت ایک خاص محدود سطح تک رہتی ہے۔انہوں نے عمران خان کے مقابلے میں سیاسی مخالفین سے مذاکرات کے بارے میں قدرے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت روکنے اور آئینی حدود تک محدود رکھنے کی غرض سے حکمران اتحاد پاکستان جمہوری موومنٹ(پی ڈی ایم)سمیت سیاسی جماعتوں سے مل کر کام کر سکتی ہے۔لانگ مارچ کی جلسوں میں تبدیلی اور راستوں کو کھولنے کافیصلہ اورتحریک انصاف کی چوٹی کے دو مرکزی قائدین کا بیک وقت فوج اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے نرم موقف ان کی سیاست میں اعتدال ا ور مثبت تبدیلی کا اشارہ ہیں جن پرعمل پیرا ہوا جائے تو مذاکرات اور عام انتخابات کی تاریخ بارے نہ صرف کوئی درمیانی راستہ نکل آسکتا ہے بلکہ ملک میں گزشتہ چھ ماہ سے جوبحرانی کیفیت ہے اس سے بھی نکلا جاسکتا ہے ۔ سیاست میں فوج کے کردار کے حوالے سے گزشتہ تمام باتوں کو ایک طرف رکھ کرتحریک انصاف کے چیئرمین کے حالیہ انٹرویو کے مندرجات کاجائزہ لیاجائے تو وہ تمام تراختلافات اور تنقید کے باوجود بھی فوج کے سیاسی کردار کے قابل نظر آتے ہیں اور اس سلسلے میں سمجھوتہ کرنے پر بھی ممکن ہے تیار ہوں کم از کم ان کے خیالات سے تو ایسا ہی تاثر قائم ہوتا ہے بہرحال یہ ان کی حقیقت پسندی ہے یاپھر فوج سے بگڑے تعلقات کی بحالی کی ایک اور سعی اس سے قطع نظر اب جبکہ عسکری قیادت نے سیاسی معاملات سے پوری طرح کنارہ کشی کا ببانگ دہل اور ذمہ درانہ اعلان کر چکی ہے ایسے میں اسے پھر سے سیاست میں از خود گھسیٹنے سے احتراز کیاجائے تو بہتر ہوگا پاک فوج کے پیشہ ورانہ کردار میں سیاسی معاملات میں کسی بھی لحاظ سے کسی قسم کا کوئی کردار نہیں اور یہی ملک و قوم اور خودادارے کے وقار کا بھی تقاضا ہے ایسے میں اس طرح کی گنجائش پیدا کرنے سے اجتناب ہی اہل سیاست کاخاصہ ہونا چاہئے اور بلاوجہ کی بالواسطہ پیشکشوں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے ۔ فوج او رحکومت وسیاستدانوں کے کردار کا جوتعین آئین میں موجود ہے اس پر عمل پیرا ہونا ہی دستور پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہونا ہے اس کے بعد ہی ملک میں سویلین بالادستی اور جمہوری اداروں کی وقعت ہو گی تحریک انصاف کے قائد کے موقف سے قطع نظر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی تجویزپراگرواقعی عملدرآمد کی نوبت آتی ہے اور حسب سابق ایک مرتبہ پھرموقف کی تبدیلی کونوبت نہیں آتی اور ان امور پرمثبت بات چیت ہوتی ہے تو یہ میثاق جمہوریت ثانی کا زریں موقع ہوگا۔ملک کی قابل ذکر سیاسی جماعتیں اپنے تجربات اور ٹھوکریں کھا کر جس نتیجے پرپہنچی ہیں اس کا تقاضا اداروں سے الجھنے اور ان کومطعون کرنے میں نہیں بلکہ سیاسی کرداروں کوخود کو سیاست تک محدود کرنے اور دیگر عناصر کودخل در معقولات سے روکنے میں ہے اور یہ تبھی ممکن اور موثر ہوگا جب ساری سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کے باوجود کم از کم اس نکتے پر میثاق کرلیں اورملک میں ستر سال بعد ہی سہی خالص سیاسی کلچر پیدا کریں اس طرح سے ہی مساوی کھیل کامیدان سجے گا اور سیاسی و عوامی مقبولیت کا بھی اندازہ ہو گاووٹ کو عزت بھی اس طرح سے ملے گی اور بااختیار و مضبوط حکومت کے قیام کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ بعداز خرابی بسیار سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیاں دہرانے کی بجائے خود کو اچھے انداز میں تبدیل کرنے اور شفاف سیاست کا راستہ اختیار کر کے ملک میں جمہوری اداروں کومضبوط بنانے کا کردار ادا کریں گے اور ملک میں حقیقی جمہوری حکومت قائم ہوگی جس میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ اور عوامی فیصلوں کا بھی احترام کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار