جنرل عاصم منیر کوبھارتی دانشور کے مشورے

افواج پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی آمد پر بھارت پر ایک سکتہ طاری ہے ۔انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس تبدیلی پر کیا ردعمل ظاہر کریں ۔ پاکستان میں وقتی سیاسی مفاد کے لئے بھارت کے میجر گورو آریا جیسے پروپگنڈہ باز کے حوالے دینا عام ہے مگر بھارت کے سنجیدہ اور صاحب الرائے لوگوں کی سوچ کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ نگار مصنف اور دی فورس میگزین کے سابق ایڈیٹر پروین ساہنی نے ٹویٹر کے ذریعے جنرل عاصم منیر کو چھ مشور ے دئیے ہیں ۔ان میں کچھ مشوروں کا تعلق پاکستان اور بھارت کے تعلقات سے ہے اور کچھ کا پاکستان اور چین کے تعلقات سے۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے ان کا مشورہ تو قابل فہم ہے کہ ایک بھارتی کے طور پر انہیں اپنے ملک کے لئے بہتری ہی سوچنا ہے مگر پاکستان اور چین کے حوالے سے مشورے خاصے دلچسپ ہیں ۔بھارتی صحافی نے جنرل عاصم منیر کومشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کنٹرول لائن پر سیز فائر کو بحال رکھنا چاہئے ۔اپنے پیش رو جنرل قمرباجوہ کی طرح مشرف کے چار نکاتی فارمولے تحت بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھنا چاہئے۔چین کی پیپلزلبریشن آرمی کے ساتھ اپنی مشقوں کے سلسلے کو بڑھانا چاہئے۔سائبر ڈومین پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔سی پیک کو ترجیح دیئے رکھنی چاہئے ۔بھارتی جرنیلوں کی طرح اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہئے ۔پروین ساہنی بھارت میں کسی حد تک پرو چائنہ سمجھے جاتے ہیں اس لئے پاکستان کی نئی فوجی قیادت کو چین کے ساتھ معاملات مزید بہتر بنانے کی بات قابل فہم ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان کے مشورے ایک بھارتی کی سوچ تو ہو سکتی ہے مگر افواج پاکستان کے سربراہ کے لئے یہ کوئی آئیڈیل ایجنڈا ہے نہ دو پیش رو کوئی اچھے رول ماڈل ہیں ۔ جنرل عاصم منیر اپنے ایک تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں اور یہ ان کے ایجنڈے کا حصہ رہے گا۔اس کی چھاپ ان کے فیصلوں اور پالیسیوں میں منعکس ہوتی رہنی چاہئے ۔جنرل پرویز مشرف اور جنرل قمرجاوید باجوہ اپنے پیچھے ایک متنازعہ اور منقسم لگیسی چھوڑ کر گئے ۔پاکستان کے موجودہ حالات اور تاریخ کے آئینے میں یہ لگیسی پاکستان میں کشمکش کے شعلوں کو بھڑکانے کا ہی باعث بنی ہے ۔بڑا فیصلہ کرنے کی ہلہ شیری ،ایشیا کا مرد آہن بننے کا جھانسہ ،اُردن کے شاہ حسین اور فلسطین کے یاسر عرفات کی طرح نوبل پیس پرائز کالالچ دے کر امریکہ نے پاکستان کے کئی سیاسی اور فوجی حکمرانوں کو اپنے حلقہ اثر میں اجنبی اور متنازعہ بنا نے کے سوا کوئی کام نہیں کیا ۔امریکہ کو ایشیا کے لئے جو ایجنڈا ہے اس میں بھارت واحد بالادست اور مضبوط طاقت ہے ۔جنوبی ایشیا کے باقی ممالک اس کے کمی کمین اور زیردست ہیں۔اس خطے میں امن بھارت کی شرائط پر قائم ہونا ہے اور بھارت کے زاویہ نگاہ میں کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے ۔اس طرح بھارت کے ساتھ امن میں کشمیر کی کہانی کو بھول جانا بنیادی تقاضا اور مطالبہ ہے۔نوے کی دہائی میں امریکیوں نے میاں نوازشریف کو شاہ حسین بننے کی ہلہ شیری دی اور وہ اپنے حلقۂ اثر سے لڑ بیٹھے ۔اس کے بعد فوجی حکمران جنرل مشرف کو نوبل پیس پرائز کی صورت الہٰ دین کا چراغ دکھاکر اس کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کیا گیا ۔جس کے نتیجے میں جنرل مشرف اتنی تیزی سے دورڑتے چلے گئے یہاں تک واپسی کا راستہ ہی بھول بیٹھے ۔اب جنرل قمر جاوید باجوہ کو بڑے فیصلے اور بڑے رول کا ٹھیکہ دیا گیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے باجوہ ڈاکٹرائن کے نام پر جنرل مشرف کے ناتمام ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام سنبھالا مگر وہ اس کی تکمیل کا خواب لئے رخصت ہوگئے ۔یوں پاکستان کے لوگوں نے اس غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل میں کئی اثاثوں کو بوجھ بنتے دیکھا ہے ۔حافظ سید عاصم منیر کشمیر کی ہوائوں کا رخ اور جذبات کے دھارے کو بخوبی سمجھتے ہیں پوٹھوہار اور کشمیر کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔لال کڑتی کے علاقے میں جہاں عہد ماضی کے فاسٹ بولر کا گھر ہے دائیں بائیں لاتعداد گھر مہاجر کشمیریوں کے گھر ہیں جو تنازعہ کشمیر کا حصہ ہیں ۔ان کے آبائی قبرستان میں سجے بے شمار کتبوں پر مہاجر کشمیر اور مہاجر جموں کی تحریر ایک تاریخی تنازعے کے بطن سے جنم لینے والی دکھ بھری کہانی کی یاد گار ہیں۔اس لئے بھارتی کیا سوچتے اور کیا مشورے دیتے ہیں اس بات کی اہمیت نہیں ۔کربلا کا وارث اور کشمیر کی ہوائوں کا شناور جس کے سینے میں قرآن روشن ورخشاں ہے کسی نوبل پرائز کے سراب کے پیچھے نہیں بھاگے گا بلکہ وہ پورے قد سے اپنی مٹی اور اپنے قدموں پر کھڑا رہے گا۔امن ،آشتی دوستی تجارت ہر شے بجا مگر اپنی شرائط اور مفاد اور تاریخ کا ورثہ سنبھالنا اس سے بھی بڑی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا