سیاسی انتشار

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدر سے ملاقات ان کی اجازت سے ہوئی۔ پاکستان کے لئے ایک کیا سو قدم بھی آگے بڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تالی ایک نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔پاکستان کی خاطر تمام اختلافات بھلا سکتے ہیں۔ان خیالات کے اظہار کے باوجود وزیر اعظم نے قبل ازیں انتخابات بارے بات چیت کے امکان کو مسترد کیا جو پاکستان تحریک انصاف کی مذاکرات کے لئے اولین شرط ہے دریں اثناء پاکستان تحریک ا نصاف نے عمران خان کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں پہلے مرحلے پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے اور ضابطہ کے تحت قومی اسمبلی میں فرداً فرداً پیش ہو کراستعفے منظور ہونے کی شرط پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہر دو جانب کے موقف اور تیاریوں سے بظاہر نئے انتخابات کی تیاری کا عندیہ ملتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے تو پھر وزیر خزانہ صدر عارف علوی سے کن معاملات پر تسلسل سے ملاقاتیں کر رہے ہیں وزیر اعظم نے اپنی دھواں دھار پریس کانفرنس میں جہاں ایک جانب قبل از وقت انتخابات کوخارج ازمکان قرار دیا وہاں دوسری جانب پاکستان کے لئے ا ختلافات کو بھلانے اور سو قدم آگے بڑھنے کے پیغام کا مخاطب کون ہے البتہ وزیر اعظم کے ان احسن جملوں کے علاوہ ان کی پوری پریس کانفرنس سابق وزیر اعظم عمران خان کی ذات اور تحریک انصاف تھی یہی کچھ قبل ازیں عمران خان کا وتیرہ رہا تھا جسے اب موجودہ وزیر اعظم نے اپنا لیا ہے ۔ ملکی سیاست میں اس قدر ضد اور انا پرستی کا دور دورہ پہلے کبھی نہ تھا جمہوری حکومت میں حکومت ہی لچک دکھا کر مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں بعض ایسے عناصر اور بااثر شخصیات موجود ہیں جو ہر قیمت پر تحریک انصاف کوکوئی باعزت سیاسی موقع نہیں دینا چاہتے اور وہ مذاکرات کا ماحول ہی بنانے نہیں دیتے دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت بھی باقاعدہ صف آرا ہے اس طرح کے ماحول میں مذاکرات نہیں ہوسکتے مذاکرات کے لئے ماحول بنانا پڑتا ہے جس پربظاہر جانبین تیار نہیں البتہ صدر عارف علوی اور وزیر خزانہ کی ملاقاتوں سے موہوم سی امید ہے کہ معاملات کا سیاسی حل نکالنے کی کوششیں جاری ہیں جن کی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے ۔ ملکی حالات اس قابل نہیں کہ اس صورتحال میں سیاستدان اپنی ضد پر اڑے رہیں اور بات چیت سے گریز کیا جائے سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو سیاسی بحران اور پولرائزیشن سے نکالنے کے لئے ہر معاملے پر آپس میں بات کریںکوئی بھی ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر بات نہ کی جاسکے ۔سیاستدانوں کو اس امرکا احساس ہوناچاہئے کہ سیاسی معاملات اور حالات کے معیشت و اقتصاد پر پڑنے والے حالات کے باعث صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے ایک سروے کے مطابق 6ماہ کے دوران کاروباری اعتماد میں مزید کمی واقع ہوئی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال سمیت متعدد عوامل کی وجہ سے ملک بھر کے مختلف معاشی شعبہ جات میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران مجموعی کاروباری اعتماد میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ6 ماہ کے دوران ملک کی غیر مستحکم سیاسی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر کاروباری اعتماد میں کمی حیران کن نہیں ہے۔اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے ملک کی معاشی سرگرمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔یہ خبر بھی پریشان کن ہے کہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائرچارسال کی کم ترین سطح پر آگئے جو کہ تقریباً چار سال کی کم ترین سطح ہے ذخائر میں کمی پاکستان کے لئے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی مزید مشکل بنا سکتی ہے۔ملک جس بحران کاشکار ہے اس کا حل نہیں نکل سکتا ایک ایسے وقت میںجب ملک شدید اقتصادی و معاشی بحران کا شکار ہے ہمارے سیاستدانوں کو سیاسی جھگڑوں اور اقتدار سے فرصت نہیں کیا حکومت اور کیا حزب اختلاف سبھی قوم کو جوابدہ اور موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں جس کا ان کو احساس کرناچاہئے جس کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز اور سیاسی طور طریقوں سے حل کیا جائے ۔ملکی معیشت اور معاشی حالات سیاسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے مہنگائی چالیس سال کی بلند ترین سطح پر ہے اس کی دیگر وجوہات سے قطع نظر سب سے بڑی وجہ داخلی حالات ہی کاعمل دخل زیادہ ہے۔ سیاسی صورتحال اس قسم کی نہ ہوتی اور ملک میں اتفاق و ہم آہنگی کا ماحول ہوتا پارلیمان اور حکومتی ادارے مضبوطی اور فعالیت سے اپنا کام کر رہے ہوتے تو ان مسائل و مشکلات سے نکلنے کی صورت نکل سکتی تھی یہ امردشوار اور مشکل اس لئے ضرور ہے کہ ہر دو جانب مذاکراتی ماحول پیدا کرنے کے مخالفین بلکہ بااثر مخالفین موجود ہیں لیکن مصلحت اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم قومی سطح پر جن یکے بعد دیگرے بحرانوں کاشکار چلے آرہے ہیںاور آراء کے جس اختلاف کے باعث سیاسی تلخیوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوتا آیا ہے اب ان تلخیوں کوسیاسی روابط کے ذریعے دور کرنے کی سعی کی جائے سیاسی جمود کو توڑ کرمسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں