مغربی سرحد پر خلاف ورزیاں تشویشناک

اگر کسی کو یہ وہم تھا کہ گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی مغربی سرحد پر امن قائم ہو گیا ہے تو اس کا یہ وہم اب دور ہو جانا چاہیے۔ سرحدی جھڑپوں میں اضافہ اور افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی کالعدم شدت پسند نیٹ ورک کی سرپرستی نے ملکی سلامتی کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں نہ صرف پاکستانی سکیورٹی فورسز بلکہ شہری آبادی کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چمن بارڈر پر افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ اور بھاری توپ خانے کی گولہ باری کے حالیہ واقعہ میں متعدد شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں جب کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں افغان جانب سے بھی کچھ ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ اگرچہ افغان جانب سے معافی مانگنے کے بعد سرحد کھول تو دی گئی ہے لیکن صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کی فورسزکے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے واقعات میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں چمن بارڈر بند ہونے سے تجارت اور نقل و حرکت متاثر ہو رہی ہے۔ گزشتہ ماہ ایک افغان سکیورٹی گارڈ کی جانب سے پاکستانی سکیورٹی اہلکار کو گولی مار کر شہید اور دو کو زخمی کر دیا گیا تھا جس کے بعد سرحد کو کئی دنوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد بھی دونوں فریقوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں مبینہ طور پر کئی افغان فوجی مارے گئے تھے۔ سرحد پر فائرنگ کے اس نوعیت کے تبادلوں نے ایک بہت ہی غیر مستحکم صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس کشیدگی کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے پر افغان طالبان کا اعتراض ہے۔ گزشتہ ہفتے فائرنگ کا تبادلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب افغانوں نے سرحدی باڑ کا ایک حصہ کاٹنے کی کوشش کی۔
چمن، جو کہ افغانستان کے لیے مصروف ترین ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ ہے، اگرچہ کشیدگی کا بنیادی مقام رہا ہے تاہم سابق قبائلی اضلاع میں دیگر سرحدی گزرگاہوں سے بھی جھڑپوں کی اطلاعات ملی ہے۔ یہ واقعات پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے محاذ آرائی کا عندیہ دیتے ہیں۔ درحقیقت، ڈیورنڈ لائن کے علاقے میں باڑ لگانے کے پاکستان کے حق کو چیلنج کرتے ہوئے افغان طالبان اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ سرحد کے کئی مقامات پر رکاوٹیں ہٹا بھی دیں۔ غیر قانونی آمدورفت کو روکنے اور سرحد کو باقاعدہ بنانے کے لیے پاکستان 2,400 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ رکاوٹیں لگا رہا ہے، جہاں سے اب تک دونوں طرف آباد قبائل کو آسانی سے نقل و حرکت کر رہے تھے۔ ماضی کی دیگر افغان حکومتوں کی طرح طالبان انتظامیہ بھی ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتی۔ اس کی کوشش ہے کہ اس علاقے میں آباد پختون قبائل کے لیے سرحدیں کھلی رہیں۔ اگرچہ افغانوں کا یہ مطالبہ تو جائز ہو سکتا ہے کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے قبائل کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے لیکن سرحد کو سرے سے ہی تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
کئی واقعات میں تو پاکستانی طالبان بھی حد بندی کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان اس اشتعال انگیزی کو ابھی تک بہت دانشمندی سے نمٹتا رہا ہے تاکہ کشیدگی مزید نہ بڑھے لیکن سرحدی جھڑپوں میں اضافہ تشویش ناک ضرور ہے۔ سرحدی معاملے پر افغان طالبان کے بڑھتے ہوئے جارحانہ مؤقف کو غیر سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا۔ یہ صرف سرحدی تعطل ہی نہیں بلکہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں بھی ہیں جو اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات میں تناؤ کا باعث بنی ہیں۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے اور قبائلی اضلاع میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے حملوں میں اضافے کے بعد صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہو گئی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ چمن بارڈر پر تازہ ترین کشیدگی کابل میں پاکستانی سفیر کی جان پر حملے کے چند دن بعد ہوئی ہے جب کہ اس حملے کے چند دن بعد عسکریت پسندوں نے کابل میں ایک ہوٹل پر دھاوا بول دیا جہاں چینی کاروباری افراد اور دیگر غیر ملکی ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس طرح کے حملوں نے عالمی برادری کے افغانستان کے بین الاقوامی عسکریت پسند گروپوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے کے خدشات کو تقویت دی ہے اور کابل حکومت کی تنہائی میں مزید اضافہ کیا ہے جسے ابھی تک کسی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے افغان طالبان حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً طالبان انتظامیہ کے ساتھ بات چیت ضروری ہے لیکن اسلام آباد کو افغانستان سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بارے میں بھی ٹھوس موقف اختیار کرنا ہوگا۔
(بشکریہ، ڈان، ترجمہ : راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک