آدمی تھوڑا سا دشمن دار ہونا چاہئے

اگردنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے بہت بڑے شہر نیویارک کا یہ حال ہے کہ وہاں کے رہنے والوں نے چوہوں کے خلاف کمرکس لی ہے اور اشتہارات کے ذریعے چوہے مار افسر کی تعیناتی کے لئے ایک لاکھ 70 ہزار ڈالر یعنی پاکستانی کرنسی میں ساڑھے تین اور چار کروڑ کے لگ بھگ رقم تنخواہ مقرر کرکے چوہے مار افسر کی تلاش شروع کردی ہے ‘ تو ہم اس پر کیا تبصرہ کرسکتے ہیں یقینا جو بھی شخص اس منصب پر فائز ہو گا وہ خوش قسمت ہی کہلا سکتا ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ ابھی چند برس پہلے جب پشاور میں بھی اس طرح چوہوں کی یلغار ہوگئی تھی تواس وقت میئر پشاور نے زندہ یا مردہ چوہے لانے والوں کو معاوضے کی پیشکش کی تھی اور ابتداء میں رقم زیادہ تھی لیکن بعد میںاسے کم کرتے کرتے بیس روپے چوہا کردیا تھا ‘ اور یار لوگوں کو نہ صرف مشغلہ ہاتھ آگیا تھا بلکہ ایک پنتھ دوکاج ‘ یعنی چوہے پکڑویا مارو ‘ عوام کی دعائیں سمیٹو ساتھ میں سٹی گورنمنٹ سے رقم بھی سمیٹو’ اس لئے اگر نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز کو اعتراض نہ ہو توپشاور کے اس دور کے چوہے مار بہادروں کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ وہ اس اسامی (آسامی درست نہیں ہے جسے سرکاری اشتہارات میں بھی غلط لکھا جاتا ہے)کے لئے نیویارک کے میئرکودرخواستیں بھجوا دیں ‘ ساتھ میں اس وقت مرے ہوئے یا پنجرے میںگرفتار کئے جانے والے چوہوں کے ساتھ جو تصویریں انہوں نے کھینچ کر سوشل میڈیا پر وائرل کی تھیں بطور ثبوت اور تجربہ وہ بھی ارسال کر دیں ‘ اگر قسمت نے یاوری کی توکسی نہ کسی کوچوہے مارافسر کے طور پر یہ ملازمت بھی مل جائے گی اور بونس کے طورپرممکن ہے کہ امریکی گرین کارڈ بھی ہاتھ لگ جائے ‘ یعنی بقول شاعر مفت ہاتھ آئے تو براکیا ہے ۔ بہر طور چوہے مار افسر کونیویارک کے میئر کے بیان کے مطابق نہ صرف متحرک’ خون کا پیاسا اور چوہوں کومارنے سے دریغ نہ کرنے والی صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہئے ‘ یار طرحدار ڈاکٹرنذیر تبسم نے اس حوالے سے جس خاصیت کا ذکراپنے شعرمیں کیا ہے وہ بھی قابل غور ہے کہ
آپ جیسے دوست سے محتاط رہنے کے لئے
آدمی تھوڑا سا دشمن دار ہونا چاہئے
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ چوہا اور انسانوں کا دوست؟ تو عرض ہے کہ اس میں اتنا کچھ غلط بھی نہیں ‘ کیونکہ دنیا بھرمیں سائنسدان انسانوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لئے جوتحقیق کرتے ہیں ان میں لیبارٹریوں میںتجربات وہاں پہلے چوہوں پرکئے جاتے ہیں اورکوئی بھی نئی دوا ایجاد کرکے اسے انسانوں پر آزمانے سے پہلے چوہوں پرآزما کراس دوا کے اثرات پر ریسرچ کرتے ہیں اورجب یہ سائنسدان اپنی صوابدید کے مطابق مطمئن ہوجاتے ہیں اس کے بعد یہ دوا یا ویکسین انسانوں پرآزماتے ہیں ‘ یہاں بھی یہ تجربات ابتدائی نوعیت کے ہوتے ہیں اورجب انہیں مکمل یقین ہو جاتاہے کہ دوا کے مضر اثرات کم سے کم ہو گئے ہیں توپھران ادویات کو عام مارکیٹ میں پھیلا دیا جاتاہے’ اس حوالے سے چوہوں کو انسانوں کا دوست قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز کی کم علمی پر حیرت ہو رہی ہے ‘ اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ بچوں کے لئے جو”نرسری رہائمز” یعنی سکولوں میں پڑھائی جانے والی نظمیں اورکہانیاں مغربی ممالک میںرائج ہیں اورجو ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کے انگلش میڈیم سکولوں میں بھی رائج ہیں ‘ رنگین تصاویر سے مزین ان ”کامک بکس” میں شامل ایک بہت ہی مشہور کہانی کا عنوان ہے ”Pide piper” یعنی پائیڈ بانسری نواز ۔ کہانی کے مطابق کسی قصبے میں وہاں کے لوگ قصبے میں چوہوں کی بھرمار سے تنگ آکر میونسپل کارپوریشن کے اراکین سے اس عذاب کا علاج کرنے کامطالبہ کرتے ہیں تو میئر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں چوہوں سے نجات دلانے والے کو ایک تھیلی سونے کے سکے دینے کااعلان کر دیا جاتا ہے ‘ اگلے روزایک بانسری نواز آتا ہے اور اراکین کارپوریشن کے ساتھ تحریری معاہدہ کرکے اگلی صبح آکر بانسری پر دھن چھیڑتا ہے تو سارے شہر سے چوہے جہاں جہاں بھی ہوتے ہیں نکل نکل کر بانسری نواز کے پیچھے روانہ ہوجاتے ہیں ‘ شہر کے لوگ یہ سارا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ‘ بانسری نواز چوہوں کو ہنکاتے ہوئے چٹان کے اوپر لے جاتا ہے اور یہ چوہے وہاں سے بہت نیچے بہنے والے پرشور تیز رفتاردریا میں کودتے چلے جاتے ہیں ‘ یوں علاقے کے لوگوں کوچوہوں سے نجات مل جاتی ہے ‘ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ‘ مگراسے یہاں چھوڑ کرنیویارک کے لوگوں کی مشکلات پربات کرتے ہیں ‘ امریکی ٹی وی وائس آف امریکہ کے اردوپروگرام میں اس حوالے سے جو معلومات فراہم کی گئی ہیں اورجواس وقت سوشل میڈیا پربھی بہت وائرل ہیں ‘ ان کے مطابق نیویارک کے عوام کوایک ایسے مسیحا کی تلاش ہے جوان کو چوہوں کی اس یلغار سے نجات دلا دے ‘ میئر نیویارک نے ایسے”مسیحا” (چوہے مار افسر) کے لئے ایک لاکھ 70 ہزار ڈالرتنخواہ مقرر کرکے اہل امیدوارکی تلاش شروع کر دی ہے ٹی وی نشریات کے مطابق نیویارک میںچوہوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ اس وقت ہوا جب کرونا کی وباء کے دوران شہر کے ہوٹلوں میں گاہکوں کوکھانا سڑک کے کنارے فٹ پاتھوںپرمہیا کرنا
شروع کیاگیا ‘ اس کے نتیجے میں شہرمیں گاربیج یعنی گندگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہوٹلوں میں کھانوں کی باقیات بیگزمیںڈال کر سڑکوں کے کنارے رکھے جانے لگے جنہیں اگلی صبح سینٹی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین ٹھکانے لگانے آتے ‘ مگر ساری رات یہ بیگز سڑکوں اورفٹ پاتھوں پررکھے ہونے کی وجہ سے چوہوں کی آماجگاہ بننا شروع ہوئے’ پروگرام میں بتایا گیا کہ نیویارک میں چوہوں کی صحیح تعداد توکوئی نہیں جانتا ‘ تاہم ایک اندازے کے مطابق اگر ہر شہری کے مقابلے میںایک چوہا گنا جائے تو شہر کی آبادی 88لاکھ ہونے کے ناتے ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا شہر کے اندراس وقت روزانہ 38 ہزار ٹن کوڑا جمع ہوتاہے۔

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ
مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟

جبکہ ماہرین کے مطابق ایک چوہے کو24گھنٹے میں خوراک کے لئے ایک چمچ کھانا چاہئے ہوتا ہے’ اوراتنی بڑی مقدارمیں کوڑا کرکٹ جمع ہونے سے چوہوں کی چیرہ دستیوں کے خلاف 22 ہزارشکایتیں موصول ہوچکی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کب کوئی پائیڈ پائپر(نجات دہندہ)کی صورت میں میئر سے رابطہ کرکے اتنی پرکشش تنخواہ کے عوض یہ کام سرانجام دیتا ہے’ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اگر کہانی والے بانسری نواز کی طرح کام مکمل ہو جانے کے بعد میئر نیویارک بھی اپنے”نجات دہندہ” کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہے جو کہانی میںدکھایاگیا ہے اور پھر چوہے مارافسر کو یہ نہ کہنا پڑے بقول جون ایلیاء کہ
آتو جائوں مگرتمہارے خط
اہل کوفہ سے ملتے جلتے ہیں