افغانستان اور ہماری سرحدیں

پختونخوا میں ایک بارپھر عسکریت پسندی سر اٹھانے لگی ہے۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے تو جواب وہی کہ کیکر کا پودا لگا کر آپ لمبی تان کر سو گئے کہ اگلے برس اس پر سیب لگیں گے اور آپ سیب سے لطف اندوز ہوں گے تو جب کیکر نظر آیا اور آپ چلانے لگے اس میں کیکر کا نہیں آپ کا قصور ہے۔ ہمارے اکثر پاکستانی بھائی طالبان کی کامیابیوں سے خوش ہو رہے تھے۔ طالبان کی جیت پر ایسے چوڑے ہو جاتے کہ گویا امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو انہوں نے شکست دی ہو۔ چلو امریکہ شکست کھا کے چلا گیا تو جیت کس کی ہوئی آپ کی نہیں طالبان کی جیت ہوئی ہے۔ طالبان جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دیا اب بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ روس اور امریکہ جیسے سپر پاور کو شکست دینے کے بعد خطہ میں کیا کوئی ملک یہ سمجھتا ہے کہ وہ طالبان کو شکست دے پائیں گے۔ ذرا سوچئے! ۔
اب آتے ہیں طالبان کی طرف، افغان طالبان دراصل تین بڑے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک مسئلہ تو سفارتکاری کا ہے۔ اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ توقع رکھ رہے تھے کہ پاکستان نے جس طرح پہلے افغان طالبان کو تسلیم کیا تھا اب بھی پہل کرے۔ کیا پاکستان یہ کر سکتا ہے؟ بین القوامی مخالفت میں ذرا پاکستان افغان طالبان کو تسلیم کرکے تو دکھائے۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ پاکستان انتظار کر رہا ہے کہ کوئی ملک افغان طالبان کو تسلیم کرلے تو وہ آگے بڑھیں۔ اسی سے جڑا ہے دوسرا مسئلہ اور وہ ہے اقتصاد کا جو روز بہ روز بگڑتی جا رہی ہے۔ پاکستان خود معاشی طور پر تباہ حال ہے تو وہ افغان طالبان کی کیا مدد کرے گا۔ ظاہری بات ہے کہ افغان طالبان کے لئے پاکستان کے اقتصادی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ ایک طرف تو عالمی سطح پر تنہائی اور خود افغان رقوم کی ضبطی اور دوسری طرف پاکستان کی جانب سے بھی کوئی امداد نہیں تو افغان طالبان کے لئے یہ بوجھ اٹھانا خاصا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ اسی سے منسلک ہے تیسرا مسئلہ بین القوامی برادری اور خود پاکستانی علما کی جانب سے اپیلوں کے باوجود افغان طالبان کے سخت گیر عناصر خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور کثیرالنسلی حکومت بنانے سے کترا رہے ہیں۔ سخت گیر افغان طالبان کا موقف ہے کہ انہوں نے بیس سالہ جہاد کی قربانیاں کیا اس لئے دیں کہ وہی لوگ دوبارہ حکومت میں شامل ہوں۔ جس مغربی تہذیب کے خلاف انہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیئے اب لڑکیوں کو باہر نکلنے سکول جانے، میڈیا پر آنے کی اجازت کس طرح دیں۔ ان کے بقول یہ سارے اقدامات دراصل مغربی ثقافت کے چونچلے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حال ہی میں کوڑوں اور مجمع میں قتل کی سزائیں دوبارہ شروع کی گئیں۔ یہ دراصل ان جنگجووں کا دبائو ہے کہ جو سخت گیر موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ افغان طالبان اپنے موقف میں لچک پیدا کریں تاکہ عالمی سطح پر ان کی قبولیت کا راستہ ہموار کیا جاسکے۔ لیکن طالبان کی قیادت کو درپیش مسئلہ اس لئے سنگین ہوجاتا ہے جب مقابلہ میں دولت اسلامیہ فی ولایت خراسان یعنی داعش جیسی تنظیم موجود ہو۔ اس تنظیم کا موقف ہے کہ افغان طالبان نے امریکہ، روس، ایران، چین، پاکستان کے ساتھ مل کر جہاد کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے جہادہر مسلمان پر فرض ہے۔ افغان طالبان کی نوجوان اکثریت کا جھکائو بھی ان نظریات کی طرف ہے۔ اس لئے ان کو ساتھ رکھنے کے لئے افغان طالبان ایک سخت گیر مذہبی نظام کے تاثر سے ہٹ نہیں سکتے۔ اگر یہ تھوڑی سی بھی نرمی دکھاتے ہیں تو وہ نوجوان داعش مکی طرف جانے لگتے ہیں۔ اسی صورتحال کا سامنا ہمارے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں کو بھی ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آتے ہی کوششیں شروع ہوئیں کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی طالبان میں مذاکرات کے ذریعے معاملات سلجھائے جائیں۔ لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا کہ افغانستان سے تو امریکی افواج نکل گئیں اور جس اتحادی حکومت کی کابل میں حکمرانی تھی اس سے افغان طالبان نے حکومت چھین لی اب سرحد کے اس پار پاکستان میں ایسا کیا ہونا چاہیئے کہ پاکستانی طالبان یہ کہہ سکیں کہ وہ یہ جنگ جیت چکے ہیں؟ بدقسمتی سے مذاکرات کرنے اور کروانے والے بڑوں نے اس پر کچھ زیادہ سوچ بچار نہیں کیا۔ دوران مذاکرات ہی ایسے سخت گیر عناصر پاکستانی طالبان میں آواز اٹھانے لگے کہ مذاکرات کا مطلب تو پاکستانی طالبان کے لئے سرنڈر یا ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ خود پاکستانی طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبدالولی المعروف بہ عمرخالد خراسانی کا شمار ان سخت گیر موقف رکھنے والے رہنمائوں میں ہو رہا تھا۔ اس دوران پہلے تو القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی اور بعد میں خود عمرخالد خراسانی کی افغانستان میں موت کے بعد مذاکرات میں تعطل پڑا۔ دراصل دونوں جانب سے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ نہیں لیا گیا۔ اس دوران تحریک طالبان پاکستان نے غیرمعینہ مدت تک کے لئے کیئے گئے سیئزفائر کے خاتمہ کا اعلان کیا۔ اس سارے عرصہ میں پاکستانی میڈیا اور سیاسی رہنما ایک عہدے کی تعیناتی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے شب وروز کی رپورٹنگ میں گزر رہا تھا۔ ایسے میں پاکستانی طالبان کی جانب سے سیئزفائر کے خاتمہ کی خبر کوئی اچھنبے والی بات نہیں تھی۔ اس لئے حکومتی رویوں اور ناسمجھیوں کے باعث طالبان نے پختونخوا میں حملے تیز کر دیئے یہ سوچ کر کہ شاید اس سے وہ معاملات کی نزاکت کو سمجھیں لیکن مجال ہے کہ ان کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔
تحریک طالبان نے البتہ اس بار احتیاط یہ کر رکھی ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ وہ عوام میں اپنی امیج ایک دہشت گرد کی حیثیت سے منوانا نہیں چاہتے بلکہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جیسے یہ صرف مدافعتی جہاد کے راستے پر گامزن ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ عوام کو براہ راست چیلنج کیا جائے اور ان کی ہمدردیاں لی جائیں۔ان حملوں کے نتیجہ میں پاکستان نے افغان طالبان پر زور ڈالا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کو پاکستان میں حملے کرنے سے روکیں بلکہ ان کے خلاف کاروائیاں کریں۔ افغان طالبان کے جنگجووں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے انہی پاکستانی طالبان کے ساتھ ایک گھر میں پناہ لی اور ایک ہی مقصد کے تحت ایک ہی مورچے میں بیٹھ کر اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑے۔ جنگ کا یہ تعلق کافی مضبوط ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم
مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات

اگر افغان طالبان نے پاکستانی طالبان پر زور ڈالا تو وہ اپنے افغان طالبان ساتھیوں کے ساتھ افغان طالبان کو چھوڑ کر داعش میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ یہی وہ ڈر ہے کہ جس کے باعث افغان طالبان اور پاکستان حکومت ایک خاص حد سے زیادہ پاکستانی طالبان پر زور نہیں ڈال سکتے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس طرح طالبان کا امیج ماضی میں رہا ہے اور جس طرح پاکستانی میڈیا اور چند سیاسی رہنمائوں نے افغانستان میں طالبان کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجائے اس سے افغان طالبان کی بطور "کٹھ پتلی” طاقت کا تاثر ابھرا۔ اس تصور کو توڑنے کے لئے نچلی سطح پرافغان طالبان جنگجو پاکستانی سرحد پر وقتا فوقتا تلخیوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
کیا افغانستان میں امن رہے گا؟ کیا یہ تلخیاں ختم ہو سکتی ہیں؟ کیا یہ تلخیاں ختم ہوں گی؟ اور سب سے بڑھ کر کیا پختونخوا میں یہ واقعات کم ہوں گے؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں اور اس کے جوابات تفصیل سے دیئے جا سکتے ہیں لیکن جگہ کی کمی کے باعث صرف ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمہ کے فی الوقت کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ہاں تلخیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ تلخیاں ختم نہیں ہوں گی اور اس طرح پختونخوا میں بھی بدامنی کے واقعات مزید بڑھیں گے۔