افغان پالیسی پرنظرثانی کا درست مطالبہ

افغانستان کی جانب سے سرحد پار فائرنگ کے بار بار کے واقعات کے بعد افغانستان کے حوالے سے ملک کی حکمت عملی پر نظرثانی ضروری ہو گئی ہے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہم مغربی ممالک کی خواہشات کے خلاف دنیا بھر میں افغانستان کے ترجمان بن کرافغان حکومت اورعوام کے مفاد کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس افغان حکومت اکثر پاکستان کی مخالفت کرتی ہے، ہمارے خلاف بندوقیں اٹھاتی ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے صرف یہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں افغانستان کی جانب سے سرحد پارسے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اندرون ملک حملوںکی تعداد کہیں بڑھ گئی ہے صرف 2022ء میں 252 حملے ہوئے جن میںایک سوساٹھ خیبرپختونخوا میں ہوئے جہاں اب تک اس سال ایک سو پندرہ پولیس اہلکار مارے گئے اور یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے نیز افغان سرحد پر جھڑپوں کی تعداد بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد پر ہونے والی جھڑپوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ دونوںملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کے باجودپاکستان کی افغان پالیسی میں عدم تبدیلی اوران کی وکالت کرکے خود دنیا کے سامنے خود کوکٹہرے میں کھڑا کرنے کے عمل کی مصلحت سمجھ سے بالاتر ہے اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ کراپنے مسائل و مشکلات میں کمی لانے پر توجہ دے پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل کی جائے تو دنیا کے رویے میں تبدیلی اور ہمارے مسائل و معاملات میں اعانت کا ہاتھ بڑھانا عجب نہ ہو گا۔
جیسے کو تیسا
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کیے مگر بدقسمتی سے ٹی ٹی پی کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں ہم کالعدم ٹی ٹی پی کے سرحد پارٹھکانوں پرحملوں کاحق محفوظ رکھتے ہیں۔ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کا عزم ضروری ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ کا موقف اور صورتحال کے حوالے سے رد عمل تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہے ۔ پاکستانی سرحدوں پرحملوں کے واقعات ناقابل برداشت ہو گئے ہیں اب مزید حملوں کی روک تھام کے لئے سرحد پار کارروائی کے بنا ء چارہ باقی نہیں رہا اس ضمن میں عالمی برادری کی حمایت اس کے لئے فطری امر ہو گا کہ یہ ایک طے شدہ فارمولہ ہے کہ جہاں سے حملہ ہو اس کا ان کی سرزمین میں جا کر جواب دیا جائے اس تنبیہ کے بعد افغان حکومت کوہوش کے ناخن لینا چاہئے اور نہ صرف سرحدی حملوںکی روک تھام کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے بلکہ اپنی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے بین الاقوامی دوحہ معاہدے پربھی عمل درآمدیقینی بنانے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے بصورت دیگر دفاع اور حملہ آوروں کے خلاف جہاں اور جس قسم کی بھی کارروائی کی ضرورت پڑے اس حق کواستعمال کرنے میں دریغ نہ ہونے سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوں گے اور خطے میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہو گا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔
دو ٹوک فیصلے کی ضرورت
روس سے سستے خام تیل کی خریداری کے معاملے پر وزیر پٹرولیم اور وزیر خارجہ کے بیانات میں تضاد باعث تشویش امر ہے وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس سے سستا تیل لینے کا معاملہ آگے بڑھ رہا ہے ، وہاںسے خام تیل ملے گا اور رعایتی قیمت پر ملے گا، امید ہے وہ ہمیں پٹرول اور ڈیزل بھی سستے داموں دے گا۔انہوں نے کہا کہ سستے تیل کے لیے روس گئے وہاں سے مثبت درعمل آیا، روس سے پٹرول اور ڈیزل بھی رعایتی قیمت پرملے گا،آذربائیجان سے بھی گیس معاہدے ہورہے ہیں۔یہ ملکی مفاد کا حامل معاملہ ہے جس پرتضاد کی گنجائش نہیں وقت اور حالات کے مطابق بیانات کی تو گنجائش ہے لیکن عملی طور پر اس معاملے پرکسی قسم کی سودے بازی نہیں ہونی چاہئے اورملکی مفاد کو مقدم رکھ کر دوٹوک فیصلہ کاباقاعدہ اعلان ہونا چاہئے تاکہ ابہام دور ہو۔

مزید پڑھیں:  اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر