اسمبلی میں آؤ اور مُلک بچاؤ

مُلک کی سیاسی صورتحال کچھ ایسے اُلجھاؤ کا شکار ہے کہ بظاہر سب تدبیریں بھی اُلٹی ہوئی جا رہی ہیں اور اہل سیاست بھی سبھی ایک جیسے ہیں کہ بس اپنی اپنی دھن میں مگن اپنے ہی پیدا کردہ سیاسی انتشار کو طول دئیے جا رہے ہیں ۔ ایک طرف فوری انتخابات کا مطالبہ، ریاستی اداروں پر الزام تراشی ، گالم گلوچ اور دوسری طرف مُلک کی معیشت ایسی ابتر ی کا شکار ہے کہ حکومت مہنگائی کو قابو کرنے اور اقتصادی صورتحال کو سنبھالا دینے میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ جب سے عدم اعتماد کے نتیجہ میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے تو اس کی قیادت اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کرانے کا مسلسل مطالبہ بڑے بڑے عوامی اجتماعات میں کرتی چلی آرہی ہے بلکہ اپنے لانگ مارچ کے اختتام پرخیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی توڑنے کا اعلان بھی کر چکی ہے ۔ ہمارے ہاں سیاسی رہنماؤں کی سوچ بھی بڑی عجیب ہے، کبھی تو آئین کی بالادستی کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ یہی تکرار کرتے ہیں کہ مُلک میں سیاسی استحکام کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اور کبھی اقتدار حاصل کرنے کی خاطر اسمبلیاں توڑنے جیسے غیر آئینی مطالبہ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ اگر موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو کیا دو صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوںکے ٹوٹنے سے مُلک میں سیاسی استحکام پیدا ہو سکتا ہے ۔ اگر اہل سیاست بھی ماورائے آئین اقدامات سے اسمبلیوں کے خاتمہ کی سوچ رکھتے ہوں تو مُلک کے جمہوری اور آئینی حلقوں میں ایسی سوچ کی بھلا کون پذیرائی کر سکتا ہے۔کسی سیاسی جماعت کا یہ مطالبہ بھی کتنا مضحکہ خیز ہے کہ مُلکی حالات کے پیش نظر چند اداروں کو سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور مُلک کس سمت کی طرف جا رہا ہے۔ گویا تمام حالات صرف اسمبلیاں توڑنے سے ہی بہتر ہو سکتے ہیں یا سیاسی و معاشی استحکام پیدا ہو جائے گا۔ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری نہ ہونے سے قبل اسمبلی توڑنے کا مطالبہ مستقبل میں منفی سیاست کا سبب بھی بن سکتا ہے اور وہ یوں کہ اگر کسی سیاسی جماعت کو اقتدار پانے کے لیے اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ ہو سکی تو پھر کیا ہو گا ؟ یقیناً ماضی کے اس مطالبے کو جواز بنا کر اسمبلی میں بیٹھنے کی بجائے نئی اسمبلی بنانے کی تحریک شروع ہو جائے گی۔ اقتدار حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ بلکہ کھیل ہاتھ آجائے گا۔ اب بھی مُلکی وسائل کی پرواہ کیے بغیر اہل سیاست اسمبلیاں توڑ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہی سیاسی بالغ نظری ہے کہ محض اقتدار کے لیے ایک جمہوری نظام کو کمزور اور سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے ۔ یہ اسمبلیاں جمہوریت کا وقار ہوتی ہیں، مُلک میں قانون سازی اور جمہوری نظام کو آگے بڑھانے کی ضامن ہوتی ہیں اور اسے توڑنے کی باتیں تو اہل سیاست کو ہرگز زیب نہیں دیتیں ۔ سیاسی
بحران ضرور پیدا ہوتے ہیں لیکن اس کا حل بھی آسانی سے نکل آتا ہے ۔ موجودہ سیاسی صورتحال کا عملی حل بھی نکل سکتا ہے اگر ہمارے اہل سیاست اپنی اپنی انا کو چھوڑ کر اور باہر سے کسی معجزے کی اُمید ترک کر کے آپس میں مکالمہ کرنے کو بیٹھ جائیں ۔ سیاسی افہام و تفہیم کے بغیر فوری انتخاب کسی صورت بھی مسائل کا حل نہیں۔ اگر کوئی جماعت قبل از وقت انتخاب کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا اس کے پاس مُلک کی اقتصادی مشکلات کا حل موجود ہے اور کیا وہ اگلے
برس قومی بجٹ میںعوام اور مُلکی ترقی کے لیے آسانی پیدا کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے ۔چند ماہ قبل جب عدم اعتماد کے ذریعے حکومتی تبدیلی ہوئی تو سیاسی فکر رکھنے والوں کو اُمید تھی کہ تحریک انصاف اپنا آئینی کردار نبھاتے ہوئے اسمبلی میں بیٹھ کر قومی معیشت اور دیگر مسائل کو حل کرے گی کہ معاشی بحران اُنہی کے دور میں شدت اختیار کر گیا تھا، مگر ایسا نہ ہوا ۔ یہ تمام عرصہ اسمبلی سے باہر احتجاج کرنے کے بعد اب عوام سے یہ کہا جارہا ہے کہ گھر سے نکلو اور مُلک بچاؤ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ تحریک انصاف کو دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلہ میں عوامی مقبولیت حاصل ہے اور ان کے بیانیہ کو عوامی پذیرائی بھی مل جاتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انہیں اپنی مقبولیت اور عوامی پذیرائی پر اتنا اعتبار بھی نہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر لیں تو یہ مقبولیت نہیں رہے گی ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کے اراکین اگر دوبارہ اسمبلی میں آکر بیٹھ جائیں تو ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا اور معاشی مشکلات کی شکار عوام کی نسبت کہیں زیادہ مُلک بچانے اور سیاسی و معاشی استحکام پیدا کرنے میں اپنا آئینی کردار ادا کر سکیں گے ۔انتخابات کی تاریخ تو طے ہو جائے گی مگر منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے بہت ضروری ہے تاکہ بعد میں دھاندلی کے قصے سننے کو نہ ملیں ۔ اسمبلی میں بیٹھ کر سیاسی اقدامات کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کی بہتری کے لیے منصوبہ سازی کی ضرورت ہے ۔ مُلک میں جاری شورشوں کا سیاسی حل بہت ضروری ورنہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تسلل مُلکی سلامتی کے لیے باعث تشویش ہے۔ اہل سیاست کو چاہیے کہ کسی کو ملوث کرنے کی بجائے اپنے معاملات کو خود ہی حل کرنے کی کوشش کریں ۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم
مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام

مُلکی سلامتی اور سیاسی استحکام کے لیے پارلیمان پر اعتماد اور اسمبلی میں بیٹھنا بہت ضروری ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور مضبوطی ہی کسی مُلک کو ہر لحاظ سے مضبوط رکھ سکتی ہے ۔