عمران خان کے پاس آخری موقع!

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بالآخر بڑا فیصلہ کر لیا ہے، اعلان کے مطابق 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی، حالانکہ اس سے قبل قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ تحریک انصاف اسمبلی تحلیل کرنے کے اعلان پر عمل درآمد نہ کر پائے گی، بالخصوص پنجاب کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ ق لیگ کو اسمبلی تحلیل کرنے پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہو گا، عمران خان نے مگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی موجودگی میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی حتمی تاریخ دے کر سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ فریش مینڈیٹ کے بغیر ملک کو معاشی بحران سے نکالنا آسان نہیں ہو گا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹھہراتے ہوئے استفسار کیا کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کی کیا وجہ تھی؟
چیئرمین تحریک انصاف کو یقین ہے کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہو گی، انہوں نے ایک سروے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 70فیصد پاکستانی معاشی بحران کیلئے نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف بظاہر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے، تاہم 23دسمبر میں ابھی چند روز باقی ہیں کیا تحریک انصاف اس پر فیصلے پر عمل کر پائے گی؟ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب فوری اسمبلیوں کی تحلیل چاہتے تھے تو پھر انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ کیوں دینی پڑی ہے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی بڑی رکاوٹ ہے یا وہ اس سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا انہوں نے اپوزیشن کو موقع فراہم کیا ہے کہ ان دنوں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے تاکہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں؟ غالب گمان اب بھی یہی ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر عمل نہ ہو پائے گا۔ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ پرویز الہی نے وقتی طور ہر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی حامی بھر لی ہو اور وقت آئے تو کوئی نیا بہانہ پیش کر دیں، اگر تحریک انصاف نے اس کی قیمت چکانے کا وعدہ کر لیا ہے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت آئندہ انتخابات میں ق لیگ کو چند سیٹیں دینے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے تو پرویز الہی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے، بصورت دیگر تحریک انصاف کیلئے سرپرائز ہو سکتا ہے۔
اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر وفاق میں فوری حکومت ختم نہیں کی جاتی ہے اور چند ماہ مزید اسی طرح گزار لئے جاتے ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ تحریک انصاف نے صوبائی حکومتوں کو ختم کر کے غلطی کی ہے کیونکہ حکومت میں ہوتے ہوئے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے جو معاہدے کر رکھے ہیں اور مشکل فیصلے کر کے اپنی سیاسی ساکھ کمزور کی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتحادی جماعتیں چاہیں گی کہ کچھ عرصہ تک حکومت قائم رہے۔ یہ وقت جس قدر طویل ہو گا، تحریک انصاف کیلئے تکلیف دہ ہو گا۔ اس صورت میں سیاسی عدم استحکام سرچڑھ کر بولے گا اور معاشی بحران مزید بڑھ جائے گا، آئی ایم ایف جو اگلی قسط دینے پر آمادگی کا اظہار کر چکا ہے اس کا اجرا مشکل ہو جائے گا، اسی طرح دوست ممالک سے جو امداد ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے وہ بھی کھٹارے میں پڑ سکتی ہے۔ ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کے دباؤ کو مسترد کر کے اسمبلی کی مدت پوری کرنے کی کوشش کی جائے، ایسا کرنا اگرچہ مشکل ہے لیکن اس صورت میں یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ معاشی بحران شدت اختیار نہیں کرے گا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مارکیٹ اپنی بلند ترین سطح (Maximum) پر کھڑی ہے، اس نے نیچے آنا ہے کیونکہ اس سطح پر عوام کی قوت خرید جواب دے رہی ہے، جبکہ اتحادی جماعتوں کیلئے سیاسی بقا کا سوال پیدا ہو گیا ہے، اتحادی جماعتیں اپنی سیاست بچانے اور آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانے کیلئے معاشی بحران کا حل نکال کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے پیسہ چاہئے یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اتحادی جماعتوں نے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا تو پھر ان کیلئے تحریک انصاف کا مقابلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔
عام انتخابات کے ساتھ تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل جڑا ہے، عمران خان کے پاس اقتدار میں آنے کا یہ آخری موقع ہو گا، اس سے پہلے انہوں نے عجلت بازی میں اپنے تمام کارڈ ظاہر کئے ہیں، اگر عام انتخابات کے نتائج عمران خان کی توقع کے خلاف آتے ہیں تو قوی امکان ہے کہ وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے اور عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی کشیدگی ختم نہیں ہو گی، عمران خان دو تہائی ملنے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن وہ زمینی حقائق سے بے خبر ہیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی جماعت بھی مقبول ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی ہے سب جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے، اگلی بار بھی ووٹ منتشر ہو گا، وفاق میں کمزور حکومت قائم ہونے کے امکانات ہیں، اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد بھی تحریک انصاف کو کچھ حاصل نہ ہو سکے گا، اور عمران خان کا آخری مطالبہ بھی ناکامی سے دوچار ہو جائے گا، سو ضروری ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو مستقبل کے امکانات کو ختم کرنے کا باعث نہ بنے۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے