اسلامی تاریخ کے المناک واقعات

تاریخ بھی عجیب مضمون ہے، اس کا کام دنیا کے واقعات کو تدریج کے ساتھ درج کرنا ہے، بذات خود اس کا واقعات کے ساتھ بہت کم احساس ہوتا ہے، البتہ تاریخ لکھنے والوں کا اس لحاظ سے عجیب حال ہوتا ہے کہ غم و الم کے واقعات ہوں، تو دیکھتے وقت دل محزون اور انگلیاں فگار ہو جاتی ہیں اور بعض کے ہاں تو یہ نوبت بھی آ جاتی ہے کہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھنا پڑ جاتا ہے۔ عالم اسلام کے مشہور مؤرخ ابن اثیر نے سقوطِ بغداد کی تاریخ لکھتے ہوئے تمہید میں یہ بات لکھی کہ کئی برسوں تک میں انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی اور آگے بڑھے اور ان خونچکاں واقعات کے رقم کرنے پر انگلیاں خون جگرسے تر بر تر کر لے، لیکن جب کوئی سامنے نہ آیا تو مجبوراً دل پر پتھر رکھ کر ہلاکو خان کے ناقابل بیان مظالم کو قرطاس تاریخ پر اتارا۔
یہی حال سقوط غرناطہ کا ہے، جس کا حال عربوں کے ہاں کی تاریخ، عربی میں تو محفوظ ہوگئی ہے لیکن اردو زبان میں ابھی تک اس پر کوئی مستند و جامع کتاب نہیں لکھی جا سکی، البتہ پاکستان کے ایک مایہ ناز سکالر شان الحق حقی مرحوم نے چند برس قبل ” ہوئے تم دوست جس کے ” عنوان سے جو کتاب لکھی تھی اس میں سپین کے حوالے سے مسلمانوں کے حصول عبرت کے لئے کافی مواد موجود ہے۔
تاریخ کا مطالعہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت انگیز بھی ہوتا ہے، اب دیکھئے نا، آج سے13صدیاں قبل جب طارق بن زیاد نے جبل الطارق نامی جزیرے ( موجودہ جبرالٹر) پر پہنچنے کے بعد اپنی کشتیاں جلانے کا حکم دیا تھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوا ہو گا کہ تقریباً آٹھ صدیوں تک سپین پر حکمرانی کرنے کے بعد مسلمان حکمران عورتوں کی طرح آنسو بہاتے ہوئے غرناطہ سے ہمیشہ کے لئے نکلیں گے، غرناطہ کے آخری حکمران عبداللہ (سپینش میں باب ڈیل) کو اس کی ماں نے بجا طعنہ دیا تھا کہ جس عظیم مسلم وراثت کی تم مردوں کی طرح لڑ کر حفاظت نہ کر سکے اب نکلتے ہوئے عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟
آج اگر ہم سقوطِ بغداد، سقوط خلافت عثمانیہ، جنگ پلاسی، جنگ میسور، سقوط ڈھاکہ اور سقوط کابل تک کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف طور پر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی شکست و زوال میں غیروں کی قابلیت و صلاحیت سے زیادہ اپنوں کی نااہلی، غداری، مال و دولت او اقتدار کی ہوس کار فرما ہے۔
سقوط غرناطہ میں آج بھی ہم پاکستانیوں کے لئے خاص طور پر بہت بڑا سبق موجود ہے، سقوط غرناطہ کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی باہمی عداوتیں، رقابتیں، رنجشیں اور اقتدار کا لالچ تھی، باہمی لڑائیوں اور عداوتوں کے سبب مسلمان سپین تو کھو ہی چکے تھے، غرناطہ کا بھی دفاع نہ کر سکے اور تاریخ کی بھول بھلیوں میں ایسے فنا کے گھاٹ اترے کہ صدیوں بعد بھی سپین کے درو دیوار بالخصوص قرطبہ کی جامع مسجد ان کی بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہیں۔
16دسمبر ہم پاکستانیوں کو ہر سال سقوط ڈھاکہ کی یاد دلاتا ہے، اور سقوط ڈھاکہ کا بھی بنیادی سبب ہمارے سیاسی و عسکری اکابرین کی عاقبت نا اندیشیاں ہی تھیں۔ ہم لوگ جو دسمبر 1971ء میں سکول کالجوں کے طالب علم تھے، اس وقت اس سانحہ عظیم کی گہرائی تو نہ سمجھ سکے لیکن آج جب بھی تاریخ پاکستان کے اس باب کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران و پریشان رہ جاتے ہیں کہ پاکستان کی بد قسمتی ملاحظہ کیجئے کہ یحییٰ خان جیسا شخص اس عظیم ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن چکا تھا اور دوسری طرف مجیب الرحمن ( بنگلہ بندھو)، جو تحریک پاکستان کا ایک مخلص کارکن تھا لیکن حالات نے اسے اگرتلہ سازش میں مبتلا کر کے مکتی باہنی کے ہاتھوں ایسا یرغمال بنا کہ بنگلہ دیش کا اعلان کرنے پر مجبور ہوا، اور تیسری طرف”شکر ہے پاکستان بچ گیا” کا نعرہ مستانہ بلند ہوا۔ اگر ہمارے جنرل یحییٰ خان، اقتدار مجیب الرحمن کے حوالے کر دیتے تو پاکستان یقیناً اس سانحے سے بچ جاتا اور چند ہی برسوں میں بنگالی قوم اسے خود اقتدار سے معزول کرا دیتے، دیکھئے نا، انہی بنگالیوں نے چار سال بعد اسے قتل کر دیا۔
آج پھر پاکستان جن حالات میں گھر چکا ہے، ان کی ہماری تاریخی سانحات کے ساتھ بڑی مشابہت ہے، ہم جیسے عامی یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو جاتے ہیں کہ عمران خان نااہل ترین اور نالائق ترین سہی، لیکن اس کی جگہ جن کو لایا گیا، وہ کم از کم کسی لحاظ سے تو ان سے بہتر ثابت ہوتے نا، تب عوام بھی مطمئن ہو جاتی، سمجھ نہیں آتی کہ آخر کون سی’ افتاد ان پڑی تھی کہ عمران خان کے لئے ایک سال مزید صبر نہیں کیا جا سکتا تھا تاکہ نا اہلی کے سبب عوام میں برا ہو کر نکلتا، اور اب تو وہ دو تہائی عوام کا مقبول ترین لیڈر ہے، پی ڈی ایم حکومت ہزار جتن اور پروپیگنڈے کر کے بھی اسے عوام کی نگاہوں اور دل سے اتارنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ لیکن اس کھینچا تانی میں نقصان وطن عزیز اور عوام کا ہو رہا ہے۔ ملک کو دیوالیہ پن کے کنارے لگا دیا ہے لیکن ان کے اقتدار کا نشہ مکمل ہونے میں نہیں آتا، پاکستان میں اس وقت دنیا کی عجیب الخلائق حکومت قائم ہے جس میں چودہ وزراء بغیر کسی قلمدان کے صرف وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں، معاونین اور مشیران کرام الگ سے مراعات غیر مترقبہ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے کے قریب ہیں، شنید ہے کہ 23 تا 27دسمبر کے درمیان صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے جا رہی ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پسماندگان 16دسمبر اے پی ایس کو صبر و جمیل عطا فرمائے اور پاکستان کو مزید سانحات سے محفوظ رکھے، اللہ تعالیٰ غیب سے کوئی حامی و ناصر پیدا کر کے وطن عزیز کی ڈولتی کشتی کو پار لگوائے آمین۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم