عالمی معیشت سست روی کا شکار

اگرچہ پوری دنیا کی معیشتیں اس وقت روس، یوکرین جنگ، شرح سود میں اضافے، کورونا کے طویل مدتی اثرات اور ناگہانی آفات کی وجہ سے درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، تاہم چین کی اقتصادی سست روی نے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ چونکہ چین عالمی معیشت کا اہم شراکت دار ہے اس لئے وہاں کوئی بھی اہم داخلی مالیاتی بحران باقی دنیا، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں کے لیے دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ گزشتہ 40 سال میں چین نے غیر معمولی اقتصادی ترقی کی ہے۔ اس کی تجارتی اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو آزادانہ بنانے اور زرعی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مراعات دینے جیسی تاریخی اصلاحات کے بعد چین کی سالانہ شرح نمو 9 فیصد اور 13 فیصد تک بھی پہنچی، تاہم حالیہ عرصے میں چین کی ترقی کا عمل سست روی کا شکار دکھائی دے رہا ہے، یہ معاشی سست روی کئی عوامل کے امتزاج کے نتیجے میں ہوئی ہے جن میں سے زیادہ تر داخلی نوعیت کے ہیں۔
کورونا کی وباء کے بعد اگر دنیا کے دیگر ممالک میں حالات بتدریج معمول پر آگئے ہیں، لیکن چینی حکومت وہ واحد حکومت ہے جس نے کورونا کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کو ابھی تک برقرار رکھا ہوا ہے، دراصل چینی حکومت صفر کوویڈ یعنی کورونا کے مکمل خاتمے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد وائرس کے پھیلنے سے پہلے ہی اس کا پتہ لگانا اور ختم کرنا ہے۔ اس حکمت عملی نے ملکی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے، اس کے نتیجے میں کاروبار بند ہو رہے ہیں، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور صارفین کی کھپت میں کمی آئی ہے اور وسائل کا زائد استعمال ہو رہا ہے۔
علاوہ ازیں حالیہ رئیل اسٹیٹ بحران، جس کو جزوی طور پر صفر کووِڈ پالیسی کے ذریعے بھی بڑھایا گیا تھا، نے بھی اس تنزلی میں میں مزید اضافہ کیا ہے کیونکہ پراپرٹی سیکٹر کا ملک کے جی ڈی پی کا 24 فیصد حصہ ہے، یہ بحران اگست 2020 ء سے ڈویلپرز کے قرض لینے پر پابندی کے باعث شروع ہوا تھا، اس سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ڈویلپرز کو پہلے سے فروخت ہونے والی جائیدادوں کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے نقد رقم کی دستیابی کی سہولت بھی ختم ہوگئی۔ حالیہ دنوں میں چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی خسارے کا شکار ہیں، جس کی وجہ کووڈ کنٹرول اور سخت ریگولیٹری اقدامات اور امریکہ، چین ٹیک جنگ ہے۔ بڑی چینی ٹیکنالوجی فرموں کو امریکہ کی طرف سے برآمدی بلیک لسٹ میں ڈالتے ہوئے مینوفیکچرنگ ٹولز اور چپس تک بیجنگ کی رسائی کو محدود کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ عالمی بینک نے 2022ء میں چین کی جی ڈی پی میں 2.8 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی ہے، جب کہ آئی ایم ایف نے اس میں 3.2 فیصد اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملکی مجموعی پیداوار میں سست رفتاری سے مالیاتی بحران پیدا ہو رہا ہے۔
عالمی معیشت میں چین کے اہم کردارکو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا حماقت ہوگی کہ اس کے داخلی مالیاتی بحران کا اثر صرف چینی سرزمین تک ہی محدود رہے گا، ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کے مالیاتی بحران کے باعث دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کو جی ڈی پی میں تقریباً 1.5 فیصد پوائنٹس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جب کہ ایک گروپ کے طور پر ابھرتی ہوئی مارکیٹیں 2-3 فیصد پوائنٹس کی کمی کا شکار ہوں گی۔ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی معیشتیں وہ ہوں گی جو چین کو برآمدات پر زیادہ انحصار کرتی ہیں، خاص طور پر اجناس برآمد کرنے والی ابھرتی ہوئی منڈیوں میں جی ڈی پی کی کمی دو سال میں تین فیصد پوائنٹس تک پہنچ جائے گی، یہ بھی خدشہ ہے کہ موجودہ حالات میں جی ڈی پی میں کمی اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ممالک اس وقت کئی طرح بحرانوں کے سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں،کساد بازاری عروج پر ہے اور عالمی معیشت پر خدشات کے سائے منڈلا رہے ہے۔
لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج عالمی معیشتوں کی تقدیر کا انحصار بیجنگ کی اپنی معاشی سست روی پر قابو پانے کی صلاحیت پر ہے ۔ حالیہ دنوں میں وہاں کووِڈ کی پابندیوں میں کچھ نرمی اور پراپرٹی سیکٹر کے لیے ایک ریسکیو پیکج کا متعارف کرانا خوش آئند پیش رفت ہے، یقیناً اس سے مشکلات کا شکار معیشت کو کچھ راحت ملے گی تاہم صفر کوویڈ پالیسی میں کوئی نتیجہ خیز نرمی کے آثار دکھائی نہیں دیتے جس کا معیشت پر بوجھ پڑتا رہے گا، مزید یہ کہ ٹیک ریگولیشن اپنی جگہ پر برقرار ہے اور امریکہ چین ٹیک جنگ بھی بلا روک ٹوک جاری ہے، چین اور امریکہ کے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی پالیسیوں کا دنیا کے 8 ارب لوگوں پر اثر پڑتا ہے جو احترام اور توجہ کے لائق ہیں، لہذا وہ جو بھی ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں اپناتے ہیں، ان کے عالمی مضمرات کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔
( بشکریہ، دی نیوز ، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم