”ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا”

سابق وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا ہے ۔جمعہ کو وہ اس پر عمل درآمد کرنے جا رہے ہیں۔حکومت اس عمل میں ہر ممکن انداز سے رکاوٹ پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔اس عمل کو روکنے کے لئے قانونی آپشنز استعمال کرنے کے ساتھ سیاسی کارڈز بھی کھیلے جاسکتے ہیں ۔جن میں ایک کارڈ یہ ہے کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ عمران خان کا اسمبلیاں توڑنے کا اعلان غیر موثر اور بے وزن ہو کر رہ جائے ۔اس کے لئے سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو گھیر گھار کر اس فیصلے کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا جائے ۔تاریخ میں پہلی بار گجرات کا ”نت ہائوس ” تقسیم کا شکارہو چکا ہے اور خاندان کا ایک دھڑا وفاقی حکومت اور دوسرا پنجاب کے اقتدار میں شریک ہے ۔عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے کے وزرائے اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور محمود خان کو ساتھ بٹھا کر اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا ۔اس موقع پر انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر کڑی تنقید کی اور انہیں احتسابی عمل میں رکاوٹ کا ذمہ دار قرار دیا ۔جب عمران خان الزامات کی بارش کررہے تھے تو چوہدری پرویز الٰہی نہ صرف یہ کہ پہلو بدلتے رہے بلکہ ان کے چہرے کے تاثرات بھی بتا رہے تھے کہ انہیں یہ سب کچھ ناگوار گزر رہا ہے۔ایک لمحے یہ سوگوار ماحول بزبان ِحال کہہ رہا تھا”قصۂ درد رہنے بھی دے ،دیکھ وہ آنکھ نم ہوگئی ”۔دوسرے ہی روز چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے تاثرات کو الفاظ کو روپ دے کر عمران خان کو ہدف تنقید بنایا ۔چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے ساتھ ساتھ عمران خان کا محسن بھی قرار دیا ۔انہوںنے کئی احسانات بھی گنوائے جو ان کے خاندان پر قمر جاوید باجوہ کی طرف سے ہوئے ہیں ۔ان میں ایک اہم بات نیب کے چنگل سے چھڑانا بھی تھا ۔پرویز الٰہی نے افسوس کا اظہا رکیا کہ عمران خان نے انہیں ساتھ بٹھا کر جنرل باجوہ کو ہدف ِتنقید بنایا ۔پرویز الٰہی کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کے حلقوں میں ایک بھونچال سا آگیا اور یہ قیاس آرائیاں زور وشور سے ہونے لگیںکہ پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے کے اعلان پر قائم رہیں گے یا وہ اپنی الگ راہ لیں گے ؟گوکہ اس کے بعد مونس الٰہی اور پرویز الٰہی نے اس کے بعد عمران خان سے ملاقاتیں بھی کیں مگر شکوک وشبہات کے سائے بدستور دراز ہوتے چلے گئے ۔مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی اسی طرح دوالگ جماعتیں ہیں جس طرح پی ڈی کی چودہ جماعتوں کے منشور اور سیاسی نظریات اور تنظیمی ڈھانچے بھی الگ ہیں۔چوہدری گھرانہ پاکستان کی سیاست ایک زمانہ شناس اور گھاک خاندان ہے۔اس خاندان کا دامن اور دسترخوان تاریخ کے مختلف ادوار میں وسیع رہا ہے ۔یہ گھرانہ سفیدپوش سیاسی کارکنوں اور شخصیات کی پرورش اورمالی نگہداشت کرتا رہا ہے ۔پی ڈی ایم میں اس وقت کئی اعلیٰ قائدین ایسے ہیں جن کے بزرگوں کی سرپرستی گجرات کا چوہدری ظہورالٰہی گھرانہ کرتا رہا ہے۔حقیقت میں یہ روایتی سیاسی خاندان تاریخی اور مزاج کے اعتبارسے اسی شاخ کا باسی ہے جس پر اس وقت پی ڈی ایم کا بسیر ا ہے ۔چوہدری پرویز الٰہی کا دل پی ڈی ایم کے ساتھ دھڑکتا ہے مگر ان کے دماغ کا فیصلہ یہ ہے کہ عمران خان کا ساتھ دیا جائے ۔اس میں جنرل باجوہ کے مشورے کا گہرا دخل بھی ہے جو چوہدری خاندان کو
دونوں طرف کھیلنے پر مامور رکھے ہوئے ہے ۔خود پرویز الٰہی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ جنرل باجوہ نے انہیں عمران خان کا ساتھ دینے کا کہا تھا ۔اس مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ چوہدریوں کا منقسم خاندان دونوں طرف کھیل کر بھی اقتدار میں ہی رہا ۔ق لیگ اور پی ٹی آئی کو جنرل باجوہ کے معاملے پر لڑائی لڑنے کی بجائے اسے قصۂ پارینہ سمجھنا کر آگے بڑھنا چاہئے ۔جنرل قمر جاوید باجوہ اب تاریخ بن چکے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ان کے پیش رو جنرل راحیل سے ایوب خان تک قصے کہانیوں میں ڈھل چکے ہیں ۔ان میں کئی لوگ حیات بھی ہیں مگر اس کے باوجود وہ گمنامی کی وادیوں میں چلے گئے ہیں ۔جنرل قمر جاوید باجوہ کے چوہدری خاندان پر احسانات ہیں اسی لئے وہ اس کا برملا تذکرہ کرتے ہیں بلکہ اپنے محسن پر الزامات لگانے پر برہمی کا اظہا رکرکے اپنا سیاسی مستقبل بھی دائو پر لگانے سے بھی نہیں چُوکتے ۔اسی طرح عمران خان بہتر جانتے ہیں کہ جنرل باجوہ ان کے محسن ہیں یا نہیں۔پرویز الٰہی عمران خان کو جبراََجنرل باجوہ کو ہیرو تسلیم کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں نہ عمران خان پرویز الٰہی کو اس بات پر مجبور کر سکتے ہیں کہ جنرل باجوہ ولن تھے مگرجنرل باجوہ کی شخصیت اور کردار پر اس اختلاف کے باوجود دونوں اتحادی بھی رہ سکتے ہیں۔جنرل باجوہ کے بارے میں عمران خان جو موقف ظاہر کررہے ہیں اور جو کہانی پرویز الٰہی سنارہے ہیں یہ سب تاریخ کے دو اوراق اور دوموقف ہیں ۔اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس میں سے کس موقف کو قبول کرتا ہے ۔اس وقت پاکستانی عوام کی اکثریت عمران خان کی کہانی پر یقین کر چکی ہے اور یہ بات اس حد تک پختہ ہو چکی ہے کہ اب اگر عمران خان بھی اس کہانی کو نیا اور خوش گوار موڑ دیں تو عوام ان کے پرانے موقف کو ہی قبول کئے رکھیں گے ۔پچھلے چار برس کے واقعات اور حالات بھی تاریخ کی کتاب کی مانند ہیں ۔کون کس کا محسن تھا کون کس کا مخالف ؟ نتائج سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔تاہم جنرل باجوہ کا عمران خان پر ایک احسان سب پر بھاری اور نمایاں ہے کہ انہوںنے عمران خان کی حکومت کی برطرفی میں خاموش سرپرست کا کردار ادا کرکے ان کی غیر مقبول ہوتی ہوئی حکومت اور شخصیت کو مقبولیت کی حیاتِ نو بخش دی اور وہ برطرفی کے دن سے مقبولیت کی ایک لہر پر سوار
چلے آرہے ہیں ۔جب عمران خان کی حکومت کے گرد گھیرا ڈالنے کا آغاز ہوا تو اس وقت اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا کوئی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گااور مریم نواز نے تو ان کے ہیٹ پہن کر عوام میں آنے کی پیش گوئی کی تھی۔جنرل باجوہ کی میز پر رائے عامہ کے جوسروے سجائے جاتے تھے ان میں بھی عمران خان کی مقبولیت سات فیصد ہوتی تھی مگر عمران خان کی برطرفی جسے مغربی میڈیا نے” سافٹ کو”یعنی نرم بغاوت کہا تھا کے بعد ان کی زمین پر رینگتی ہوئی مقبولیت پر لگا کر اُڑنے لگی اور اب تک اُڑتی ہوئی یہ پتنگ کسی کے ہاتھ ہی نہیں آرہی ۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات
مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم

اس پتنگ کو کاٹنے کے لئے متبادل اور متضاد بیانیوں کے کتنے ہی پیچے لڑانے کی کوشش ہوئی مگربیانئے کی اس پتنگ کی ڈور کاٹی نہ جاسکی اُلٹاایک کے بعد دوسری پیچا لڑانے والی پتنگ ہی کٹ کر گرتی چلی گئی۔ یہ الگ بات کہ عمران خان اس احسان کا اعتراف کرنے کی بجائے ”ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا” کے انداز میں جنرل باجوہ پر تنقید کئے جارہے ہیں۔حد تو یہ کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو پہلو میں بٹھا کر جنرل باجوہ کو احتساب نہ ہونے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو چوہدری صاحبان کے پرانے زخم ہرے ہونا فطری سی بات ہے کیونکہ وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ جنرل باجوہ ہی تھے جو انہیں نیب کی احتسابی چکی میں پسنے سے بچاکرلائے۔