بی آر ٹی تحصیلدار بونی اور خصوصی افراد

پشاور کے ایک مہربان قاری نے ایک واٹس پیغام میں یاد دلایا ہے کہ دسمبر کا مہینہ بھی گزرنے کو ہے مگر وعدے کے مطابق بی آر ٹی کے اعلان کردہ فیڈر روٹس نہ چلائے گئے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی اعلان کیاگیاکہ اب تک کس حد تک پیش رفت ہو چکی ہے اور کب تک اعلان شدہ فیڈر روٹس پرگاڑیاں چلنا شروع ہوجائیں گی۔ علاوہ ازیں انہوں نے ایک اچھی تجویز یہ پیش کی ہے کہ اب جبکہ امن و امان کے حالات ایک مرتبہ پھر دگر گوں ہیں خود کش حملہ آور کی آمد و موجودگی کا انتباہ جاری ہو چکا ہے اوربھتہ کالوں کے آنے اور تاجروں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ عروج پر ہے ایسے میںایک ایک فرد کی شناخت اور ممکنہ نگرانی کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے جس کاتقاضا ہے کہ جس طرح فری کارڈوں کے اجراء کے موقع پر ہر کارڈ لینے والے کو ان کا شناختی کارڈ نمبر محفوظ کرکے کارڈ جاری کیا گیا تھا وہ سلسلہ فری کارڈز کے ختم ہونے کے بعد بند نہیں کرنا چاہئے تھا یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں حکام چاہیں تواب بھی ہر کارڈ کے ری چارج کے موقع شناختی کارڈ
نمبردرج کرکے باقاعدہ کسی فرد کے نام پر اس کا اجراء ہو سکتا ہے اور جتنے بھی نئے کارڈ جاری ہوں ان کوکسی نام شناخت اور شناختی کارڈ نمبرپر جاری کیا جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اس میں مسافروں کا بھی مفاد ہے کارڈ گم ہونے کی صورت میں ان کو اس طرح کے کارڈ ہی سے ان کا بیلنس واپس مل سکتا ہے گمنام کارڈ میں اس کی سہولت موجود نہیں ان کا مزید کہنا ہے کہ بی آر ٹی سٹیشنز پر سوائے مال آف حیات آباد کے کہیں اور بزرگ شہریوں کی الگ قطار نہیں بنتی سبھی ایک لائن میں کھڑے ہوتے ہیں وہاں بھی سٹاف ممبر اولاً کم ہی موجود ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو سیل فوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں کسی دن صبح کے وقت کوئی گلبہار سٹیشن کے نظارے کے لئے آجائے کتنا رش اور کتنی لمبی قطر لگی ہوتی ہے اسی طرح ملک سعد شہید ڈبگری گارڈن اور صدر و پشاور بورڈ کے سٹیشنز پرکمزور آدمی کے لئے بس میں سوار ہونا ہی دشوارہے دھکم پیل اور بس میں جگہ بنانا ہرآدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی موجود عملہ کو اگر پابند بنایا جائے تو مسافروں کو سہولت ہو گی۔
پاکستان میں اراضی پر قبضہ کے مقدمات لڑنے اور ان کافیصلہ آنے تک دادا کے مقدمے کا فیصلہ پوتے کو سنانے کا عمل تقریباً محاورے کی صورت اختیار کرگیا ہے لے دے کر مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے کے بعد بھی حقدار کو ان کے حق کی واپسی اتنی آسانی سے نہیں ہوتی بہرحال یہ ہر کسی کو معلوم امر اور نوشتہ دیوار ہے ایک ایسی ہی فریاد میر ولی ولد پردوم ولی ساکن اپرچترال کی موصول ہوئی ہے فریادی کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ تک مقدمہ لڑ کر مخالف فریق سے کوراغ اپر چترال میں واقعی اراضی کا مقدمہ تو جیت چکا
عدالت اور ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ کلکٹر نے بھی تحصیلدار بونی اپرچترال کو اراضی مذکورہ حوالہ کرنے کی ہدایت کی مگر تحصیلدار مسلسل حکم عدولی کا مرتکب ہو رہا ہے اس طرح کے مقدمات میں جوکچھ ہوتا ہے اس الزام کی طرف میں نہیں جاتی عدالت کے احکامات کی پیروی تحصیلداربونی کا فرض ہے تاخیری حربے اختیار کرنے پر ڈپٹی کمشنر اپر چترال کافرض بنتا ہے کہ وہ تحصیلدار بونی کی سرزنش کرے اورقانون پرعملدرآمد یقینی بنائے ۔میر ولی نے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کو جوشکایتی مراسلہ لکھا ہے اس پر فوری کارروائی ہونی چاہئے ۔ جو لوگ کسی کی اراضی پرقابض ہوتے ہیں جب تک کسی عدالت سے فیصلہ نہیں آتا تب تک تو شک ہی سہی اس کا امکان ہے لیکن جب کسی عدالت خواہ وہ جرگہ ہو یا ابتدائی عدالتیں فیصلہ آنے کے بعد تو دوسرے کا حق ثابت ہو جاتا ہے اس کے بعد اس پر قابض رہنے کی کتنی گنجائش ہے اس حوالے سے اگر ہر کوئی غور کرے اور پھر حکام کسی کو ان کا حق دلانے کے فرائض کی اد ائیگی کی اہمیت جانیں تو اس طرح کی فریادوں کی نوبت ہی نہ آئے ۔ ایک کالم معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر شائع ہوا تھا جس کی تحسین کے ساتھ ایک پیغام شیئر کیاگیا ہے جس میں خصوصی افراد سے متعلق تجاویز اور اقدامات کی سفارش کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
ڈویژنل لیول پر پیراپلیجک سنٹر پشاور کی طرز پر بروقت اور معیاری جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی بحالی کے بڑے اور سپیشلائزڈ مراکز قائم کئے جائیں۔ہر ضلعی ہیڈ کواٹر ہسپتال میں ایک درمیانے درجے کا کمپری ہینسیو فزیکل ری ہیبیلیٹیشن سنٹر قائم کیا جائے، اور کم سے کم سے بستر صرف اور صرف فزیکل ری ہیب کیلئے مختص کئے جائیں ۔ تمام تر تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتالوں، رورل ہیلتھ سنٹرز اور بیسک ہیلتھ یونٹس میں چھوٹے چھوٹے کمپری ہینسیو فزیکل ری ہیب سنٹر بنائے جائیں۔
عوامی رسائی کی تمام تر بلڈنگز بشمولِ ہسپتال، تعلیمی ادارے،بینکس، کھیل کود کے میدان، مساجد، کاروباری مراکز، پارکس، راستے اور سڑکیں وغیرہ وغیرہ کو افراد باہم معذوری کے لئے آسان رسائی کے قابل بنایاجائے۔ تمام ائیرلائنز، ریلویز پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کو افراد باہم معذوری کے لئے آسان رساء اور سیٹنگ کیلئے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔
معذوریوں اور افراد باہم معذوری کے مضامین کو بچوں کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔
افراد باہم معذوری کے استعمال میں آ نے والے سازوسامان، آلات، مشینری اور گاڑیوں وغیرہ کو ٹیکس فری ڈیکلیئر کیا جائے۔
گھر اور بستر تک محدود افراد باہم معذوری کا خیال رکھنے والے رشتہ داروں کیلئے کم سے کم تنخواہ مقرر کی جائے، یا انہیں ایک یا ایک سے ذیادہ مستقل خدمتگار فراہم کئے جائیں۔
اپنا گھر یا خاندان نہ ہونے کی صورت میں افراد باہم معذوری کے لئے، طویل مدتی اقامتی ادارے بنائے جائیں۔
کامیاب اور باہمت افراد باہم معذوری اور انکے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے رضاکاروں اور میڈیکل پروفیشنلز کو قومی اعزازات سے نواز جائے۔
قارئین اپنے پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟