قابل غور و قابل عمل

چونکہ عمومی طور پر ہم مغرب اور اغیار سے متاثر ہیں اس لئے ہمارا عمومی خیال بھی خود ہمیںکو مرغوب کرتا ہے اور یوں ہم ان کے زیر اثر رہتے ہیں معاشی و صنعتی ترقی کے باعث جو معاشرے خوشحال ہوں ان کی طرف مراجعت ویسے بھی فطری امر ہے کم علمی اور لاعلمی بھی اس کی وجوہات میں سے ایک ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی اور ماحول کی صفائی کے حوالے سے ہم میں زیادہ تر یہ سمجھتے ہوں گے کہ اس کا درس مغرب اور اغیار نے دیا وہ عرصے سے ماحولیاتی آلودگی ہوا کی کثافت اور اس طرح کے موضوعات پر گفتگو تحریر اور تقریر کرتے آئے ہیں یوں اس کا ادراک و علم بھی انہی سے شروع ہونا چاہئے اور انہی کو اس کا کریڈٹ بھی جانا چاہئے جنہوں نے دنیا میں یہ موضوع متعارف کرایا ارو اسے باقاعدہ طور پر ایک مسئلے کے طور پر پیش کرکے اس کے حل تجویز کئے میں بھی کسی حد تک اس عمومی خیال ہی کے زیر اثر رہی لیکن جب مطالعہ کیا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ جس مسئلے سے دو چار ہو کر آج ہم اس بارے مشوش ہیں اس مسئلے کا جب کوئی وجود تو کیا کوئی تصور بھی نہیں تھا ہمارے دین میں اس کا ادراک اس کی تعلیم اور لائحہ عمل موجود تھا ۔ آج دیکھا جائے تو اس وقت ماحولیاتی آلودگی پوری دنیا کے لئے سنگین مسئلہ بن چکا ہے انسان نے صنعتی و سائنسی ترقی کی دوڑ میں فطرت اور قدرتی ماحول کو جو نقصان پہنچایا ہے آج یہ عفریت بن چکا ہے عالم یہ ہے کہ ہوا ‘ پانی اور زمین کی طبعی ‘ کیمیائی اور حیاتیاتی خصوصیات میں ناپسندیدہ و نامناسب تبدیلیاں آگئی ہیں زمین کی درجہ حرارت میں نقصان دہ حد تک اضافہ ہونے کے باعث عالمی حدت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے ۔ جس سے نہ صرف جانداروں بلکہ یہ کرہ ارض ہی خطرے سے دو چار ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں دنیا ان خطرات کی نذر نہ ہوجائے ۔ماحولیاتی حدت اور آلودگی ایک وسیع موضوع ہے جس کا کالم میں احاطہ ممکن نہیں آج ہمارا نکتہ ماحولیاتی تحظ کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ ہے ۔ اسلام نے ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم دی ہے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی اعتدال سے گزاری جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے”اور کھائو پیو البتہ حد سے تجاوز نہ کرو(الاعراف) اور دوسری جگہ ارشاد ہے ”اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘ (الانعام)۔ قرآن کی نظر میں
ہر وہ چیزجونفع کی صلاحیت کو کھو دے وہ فساد ہے اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی چیز کا نظام توازن اور اعتدال بگڑ جائے جس سے اس کی حقیقی افادیت ختم ہوجائے اس کا سبب بے اعتدالی ہے ۔ اب ان آیات کی روشنی میں اپنے پہناوے سے لے کر برتنے والی چیزوں اور مشینری کے استعمال اور آمدورفت کی سہولتوں سبھی پر غور کریں ان سے بھی قطع نظر اتنا ہی دیکھ لیجئے کہ ہم بازار جا کر جو سودا سلف لا رہے ہوتے ہیں کتنی پلاسٹک پیکنگ کی صورت میں اور تھیلوں کی صورت میں گھر آتی ہے یہ سب ہماری اپنی بے اعتدال اسراف اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی دنیا اور ماحول کی تباہی کا سامان ہے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور ہوش کے ناخن نہ لئے جائیں تو خدانخواستہ مزید سخت حالات سے دو چار ہونے کا قوی اندیشہ ہے ۔ سبزہ اور پودے ماحول کو قدرتی رکھنے کا سب بڑا ذریعہ ہیں اسلام میں شجرکاری کو خاص اہمیت دی گئی ہے فرمان الٰہی ہے ” اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس سے ہر چیز کے انکھوے نکالے پھر ہم نے اس سے سرسبز شاخیں ابھاریں۔اس آیت میں بنی نوع انسان کو سبزہ کے اسباب پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے ‘ نیز حدیث شریف میں بھی شجر کاری کی اہمیت بیان کی گئی ہے حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” جو بھی مسلمان پودا لگائے گا اور اس سے کچھ کھالیا جائے گا وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا”(صحیح مسلم) ایک اور روایت کے مطابق حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جو مسلمان پودا لائے گا یا کھیتی کرے گا اور اس سے کوئی پرندہ انسان یا چو پایہ کھالے گا وہ اس کے لئے صدقہ بن جائے گا(بخاری شریف) ایک دوسرے اسلوب سے آپۖ نے شجرکاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا”جو شخص پودا لگائے گا اس کے لئے اس
پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھا جائے گا(مسند احمد) اسی طرح اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ کسی بھی بھی جاندار مخلوق کی نسل کشی نہ کی جائے کیونکہ ہر جاندار مخلوق کا ایک سماجی وجود ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے”اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازئوں سے اڑتا ہو مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں اور ہم نے اپنی کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے”۔ (الانعام) قرآن مجید میں مویشیوں کے بارے میں ایک پوری سورت الانعام موجود ہے جس جنگلی حیات کی آج حفاظت پر زور دیا جارہا ہے اسلام میں اس پر کس زمانے میں اور کن حالات میں اور کیسی تمدن والے دورزور دیاگیا ہے اس کا اندازہ مشکل نہیںاسلام میں فضا کو مسموم کرنے کی ممانعت ہے مردوں کو دفنانے کا طریقہ دیکھ لیں نیز کھلے عام گندگی پھیلانے کی بھی ممانعت ہے ۔ اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ پانی اور دیگر استعمال کی ا شیاء کی زیادہ ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے چنانچہ آپۖ نے ارشاد فرمایا”مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں پانی ‘ گھاس اور آگ”(سنن ابن دائود) پانی کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے کرہ ارض پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی کو رکھا ہے لیکن قابل استعمال پانی کے ذخائر قدرت نے کم رکھے ہیں اور اوپر سے یہ ہمارے بے دریغ استعمال کے باعث مزید کم ہوتے جارہے ہیں جس سے آبی بحران کا خدشہ ہے ۔ اس حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات واضح ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”اس امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے” اسلام کی تعلیم پانی کا کفایت سے استعمال یہاں تک کہ دریا کے کنارے وضو کرتے ہوئے بھی پانی کا ضرورت سے زائد استعمال منع ہے ۔اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ پانی کو آلودہ نہ کیا جائے اسی طرح صوتی آلودگی کے حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات واضح ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
”اور اپنی آواز کو پست رکھ ‘ بے شک سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے”۔(سورہ لقمان)۔
ان تمام آیات واحادیث کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہوا کہ اگر انسانیت ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائے اور بطور خاص مسلمان ان تعلیمات پر عمل کرکے نمونہ بن جائیں تو آلودگی کی روک تھام اور ماحولیات سے تحفظ کی ضرورت بحسن و خوبی پوری ہو۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا