ڈیفالٹ کا خطرہ اور ہماری بے حسی

صبح صبح دروازے پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا۔میرا پڑوسی پریشان حال دروازے پر کھڑا تھا ۔ میں نے پوچھا۔کیا ہوا ؟ قرضہ مل گیا ؟ اس نے نفی میں سر ہلایا اور بولا”اس چودھری کا تو دماغ ہی خراب ہے۔ بجائے کچھ قرض دینے کے مجھے لیکچر دینے لگا کہ اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرلو اور گھر کا غیر متنازعہ سر براہ بھیج دو ۔ بھلا کوئی ایسے بھی دھتکارتا ہے مجھ جیسے خاندانی آدمی کو ۔
میں نے تسلی دی اور بیٹھک کا دروازہ کھول کے اسے اندر بٹھایا۔ اس کے لئے گرما گرم چائے منگوائی ۔اور دوبارہ پوچھا کہ غصے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔تفصیل سے بتاو چودھری کیا کہہ رہا تھا۔اس نے ایک لمبی سانس لی اور کہنا شروع کیا کہ چودھری کی ساری باتیں ہی میری طبیعت کے خلاف تھیں۔ کہہ رہا تھا کہ میرے پرانے قرضے کی ادائیگی کا کیا پلان ہے۔میں تمھیں گذشتہ آدھی صدی سے قرضے دے رہا ہوں۔اور تم اس سے کوئی منافع بخش کاروبار یا ذرعی سکیم شروع کرنے کی بجائے اللوں تللوں میں اڑاتے رہے ہو۔چلو اب تو بتائو کہ مزید قرضہ کس بھروسے پر دوں؟ میرے قرضے کی واپسی کی کیا گارنٹی ہے ؟میں نے پڑوسی کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ اور مزید تفصیل پوچھی۔تو بولا کہ چودھری صاحب نے تو سراسر بکواس ہی شروع کی تھی کہہ رہا تھا کہ جس گھر کے بڑے کی حیثیت سے تم قرضہ مانگنے آئے ہو۔تمہاری وہ حیثیت بھی متنازعہ ہو گئی ہے۔کیونکہ تمہارے دوسرے بھائیوں نے تم پر مقدمہ کیا ہے کہ تم دوسرے بھائیوں کو دبا کر زبردستی اس گھر کے مالک بنے ہوئے ہو۔ اس لئے سب سے پہلے تو تم سارے بھائی آپس میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لو کہ اس گھر کا مالک کون ہے ؟ تاکہ میں اس بات پر مطمئن ہو جائوں کہ میں اس گھر کے ایک ذمہ دار مالک سے بات کر رہا ہوں۔ جو میرا قرضہ واپس کرنے کا ذمہ دار ہوگا اور میرے ساتھ کئے گئے سارے وعدے بھی پورے کرے گا۔
میں نے پڑوسی کی دلجوئی کے لئے چودھری صاحب کی مذمت کی اور پوچھا کہ چودھری صاحب نے کوئی کام کی تجویز بھی دی یا صرف کوس رہا تھا تو بولا کہ چودھری صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ سارے کام اب بھی ہو سکتے ہیں وہ اس طرح کہ تم اپنی حویلی کا غیر ضروری حصہ بیچ کر رقم حاصل کرلو۔ ساتھ ساتھ گھر میں رکھے پانچ کلاشنکوفوں میں سے چار کلاشنکوف بھی بیچ دو کیونکہ گھر کی سیکورٹی کے لئے ایک کلاشنکوف بھی کافی ہے۔ساتھ ساتھ بیٹوں بہووں کو بٹھا کر اس بات پر راضی کر لو کہ آدھے زیورات بیچ کر کاروبار میں لگائے جائیں اور جب کاروبار میں فائدہ ہوگا تو ان کے لئے اس سے بھی اچھے زیورات بنا دئیے جائیں گے۔ اور مزید یہ پابندی لگا لو کہ جب تک ہم اپنا قرضہ نہیں چکا لیتے۔اس گھر میں مرغ پلاو نہیں پکے گا۔سب کو دال ساگ پر گزارہ کرنا ہوگا۔بھلا میں کیسے گھر میں دال ساگ کی بات کرسکتا ہوں۔مجھے تو گھر کی سربراہی سے معزول کر دیا جائے گا۔
کافی دیر خاموشی کے بعد میں نے ایک سوال کی اجازت چاہی۔اجازت ملنے پر میں نے کہا کہ آپ پوری ایمانداری سے بتائیں کہ کیا چودھری صاحب کی باتیں غلط تھیں یا صحیح اور اگر تم چودھری ہوتے تو مسلسل قرضہ مانگنے والے کو کیا نصیحت کرتے ؟ وہ کافی دیر خاموش رہا۔پھر آہستہ سے بولا کہ ویسے تو چودھری صاحب کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن مجھے اس وقت صحیح باتوں اور نصیحتوں کی نہیں بلکہ کچھ مزید قرضے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اپنے اہل وعیال کو رام رکھنے کے لئے مرغی پلاو کھلاتا رہوں ۔ میں گھر میں سخت فیصلے کرکے ان کو دال ساگ کھانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ورنہ وہ بھی میرے بٹوے سے بچی کچی ساری رقم زبردستی نکلوا دیں گے۔اور مجھے حویلی کی سر براہی سے ہٹا دیں گے۔
میں نے نصیحت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پاوں پٹختا ہوا میری بیٹھک سے نکل گیا ۔اور میں سوچتا رہ گیا کہ اس جیسے کتنے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جو اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے خاندان کو بھی۔ گھر کے سربراہ کا فیصلہ کرنے کے لئے بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے بد خرچی بند کرنے اور آئندہ کے لئے کفایت شعاری کا فیصلہ کرنے کی بجائے کشکول لے کر گائوں محلے میں گھوم رہے ہیں۔تاکہ بس فی الحال عیاشی جاری رہے۔کل کا کل دیکھا جائے گا۔
تھوڑی دیر بعد ٹی وی کھول کر دیکھا تو خبریں آرہی تھیں کہ آئی ایم ایف’ ورلڈ بنک اور دوست ممالک نے مزید قرض دینے کے لئے شرط لگائی ہے کہ پہلے اپنے گھر کے معاملات درست کر لیں۔ سات آٹھ مہینے کی حکومت کی بجائے پورے پانچ سال کے لئے ایک صحیح نمائندہ حکومت ہو۔جو ملک کی ساری قوتوں کو ساتھ بٹھا کر سخت فیصلے کرے۔ عیا شیاں چھوڑ کر اپنی چادر کے مطابق پاوں پھیلائے ۔اور بین الاقوامی برادری خاص کر قرض دہندگان کا قرضہ واپس کرنے کے لئے معاہدے کرکے ان معاہدوں کی پاسداری کا ذمہ لیں۔
گویا گائوں اور دنیا کے معاملات ایک جیسے ہیں۔
قرض دینے والے اپنے قرضوں کی واپسی کی ضمانت چاہتے ہیں۔ وہ گھر کے بھیدی ہیں۔اور ہمارے اللوں تللوں سے واقف ہیں۔لیکن ہم ان سے خواہ مخواہ شکوے شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔آئی ایم ایف’ورلڈ بنک اور دوستوں کو کوسنے دے کر خود مظلوم بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالانکہ اصل مجرم ہم خود ہیں کہ ان کی طرف سے نہایت کم شرح سود پر دئیے گئے قرضے صحیح مدوں میں استعمال نہیں کر سکے۔اور اب بھی صورتحال کی اصلاح کی خاطر فوری انتخابات کراکر پانچ سال کے لئے ایک منتخب حکومت قائم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ایسی نمائندہ حکومت جو مراعات یافتہ طبقہ کی پرواہ کئے بغیر معیشت کی بحالی کے لئے سخت فیصلے لے سکے۔اور جو بین الاقوامی دنیا سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔سات آٹھ مہینے کی بے بس حکومت یا ڈنڈے کے زور سے آئی غیر نمائندہ حکومت پر کون بھروسہ کریگا۔اور یہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں ہے۔مینڈیٹ متنازعہ ہونے یا مقبولیت کھونے پر حکومتیں مستعفی ہوکر عوام کو موقع دیتی ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی نئی حکومت قائم کریں۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اسی ہفتے مستعفی ہو کر معینہ وقت سے کئی مہینے قبل انتخابات کا راستہ ہموار کر چکی ہے ۔ترکیہ صدر رجب طیب اردووان وقت مقررہ سے کئی مہینے پہلے صدارتی انتخابات کرانے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ موجودہ حکومت کو بھی فوری مستعفی ہو کر تازہ مینڈیٹ کے لئے عوام سے رجوع کرنا چاہئے۔تاکہ ملک میںعوام کی نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں آئیاور وہ ان مسائل کاباراٹھائے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال