جناب وزیراعظم ‘سوالات نہیں جواب چاہئے

وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آ ج سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کو دوبارہ کون لے کر آیا؟۔ گزشتہ دور میں پختونخوا کو دوبارہ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کس طرح کے پی دوبارہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا؟۔ کس نے کہا تھا کہ ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں، یہ ملکی ترقی میں حصہ ڈالیں گے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم سوالات کا ذمہ دارانہ جواب اور کوتاہی کے ذمہ داروں کے تعین کرکے ان کو کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری نبھانے کے بجائے عوام کی طرح خود سوال پوچھ رہے ہیں وزیر اعظم کے عہدے کا شخص بھی اگر صرف سوال پوچھنے لگے اور جواب نہ دے سکے یا جواب نہ ہو اور صورتحال سے قوم کوآگاہ کرنے میں تامل کا شکار ہو یا پھرمصلحت آڑے آئے تو پھرآخر قوم کس کو ذمہ دارٹھہرائے۔ پارلیمان میں بھی یہی سوالات پوچھے گئے اور اشاروں کنایوںہی سے سہی سمت کی جانب اشارے کئے گئے اس کے بعد بجائے اس کہ وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس میں سوالات پوچھتے ان کو سیاسی اور دیگر مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قوم کوبتانا چاہئے تھا کہ گزشتہ حکومت میں جن سے کوتاہیاں ہوئیں اور جو عاجلانہ فیصلے کئے گئے ان کی ناکامی کے ذمہ دار بھی کوئی دوسرا نہیں وہی حکومت ہی گردانی جائے گی وہ حکومت مصلحت کا شکار ہوئی یا جوبھی صورتحال تھی اس کا جواباب سابق حکمران ہی دے سکتے ہیں لیکن کہیں سے ابتداء تو ہو سوالات پوچھنے سے بات آگے بڑھے تو جب سیاسی بیانات اور سیاسی معاملات پر دو قدم آگے بڑھ کر بات ہوتی ہے شدید تنقید الزامات یہاں تک کہ بہتان تراشی تک ہوتی ہے تو اس سوال کا جواب کیوں نہیں مانگا جاتا اور حساب و احتساب میں کیا امر مانع ہے کہ نہ تووفاقی حکومت مطمئن ہے اور نہ ہی عوام کی محرومیوں میں کمی آئی ہے عوام بھی وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے یہی تو استفسار کر رہے ہوتے ہیں کہ آخر ان کی مشکلات کامداوا کون کرے گا۔ دہشت گردی کی عود کر آنے والی لہر کی ذمہ داری اگرکسی پرعائد ہوتی ہے تو فیصلہ سازوں کوذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟