دنیا کی پانچویں بڑی معیشت

بلا شبہ پاکستان جس اقتصادی بھنور میں پھنسا ہوا ہے وہ تشویش نا ک صورت حال ہے ، اس معاملے کو بعض حلقوں کی جانب سے غیر سنجید ہ لیا جارہا ہے وہ بھی سیا سی مقاصد کے طور پر اچھالا جا رہا ہے یہ سوچ ہی نہیں ہے کہ اگر بھنور میں کشتی ڈولتی ہے ڈوبتی ہے سبھی سوار اس کی نذر ہو جا یا کرتے ہیں ۔ اگر بات بات پر الزام خود پر سے اتارنے کے غرض سے آنے جا نے والوں پر عائد کر دیا جائے تو معیشت کی صورت حال بہتر تو نہیں ہو پائے گی جب کہ پاکستان کا اس وقت سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ معیشت کی ڈوبتی نیا کوکیسے بچایا جائے بھنور سے نکلنے کا راستہ کونسا ہے اسے کیسے تلا ش کیاجائے ناکہ ایسے سنجید ہ ترین امور پر سیا ست بکھیر دی جا ئے ، چنانچہ حالات وواقعات بتارہے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی اقتصادی ومعاشی حالت ابتر ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ، بنگلہ دیش اب بھی ایک بہتر پوزیشن میں جبکہ بھا رت جنوبی ایشیا ہی نہیں دنیا کی ٹاپ پانچ معیشتوں میں شما ر ہو رہا ہے ، معیشت تواس وقت پاکستان اور سری لنکا کے گلے میں پڑی ہوئی ہے ، بھارت کے وزیر دفاع راج نا تھ سنگھ نے گزشتہ دنوںابلاغ کے نمائند وں سے گفتگو میں بتایا کہ بھارت دنیا کی ٹاپ پانچ معیشت میں داخل ہو چکا ہے اور 2027تک تیسر ا مقام حاصل کر لے گا ساتھ ہی انھو ں نے اخباری نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی بھوک سے دم نہ توڑ ے یہ ان کی دعا ہے ، یہ دعا کس قدر اخلا ص سے بھری ہوئی ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیو ں کہ دلوں کے بھید رب کریم کے سوا کوئی نہیں جا ن پاتا تاہم لہجہ بتا تا ہے کہ کیا صداقت ہے گویا وہ اپنی معیشت کی شہنا ئی بجانے کے ساتھ پاکستان کے معاشی حالت زار پر ڈونڈی پیٹ دی ، سو چنے کی بات ہے کہ ایک تو وزیر مو صوف دفاع کے وزیر ہیں ان کا معیشت لینا دینا کیا دوم ان کے ہمسائے میں اور بھی ممالک پڑے ہوئے ہیں جن میں سری لنکا بھی ہے جس نے حال ہی میں دیو الیہ ہونے کا اعلان کیا ہے ، اس کی فکر نہ ہوئی ان بھارتیوں کا نزلہ سارے کا سارا پاکستان پر گرتا ہے ، جس کا پاکستان کے ہر باشندے کو احسا س رکھنا چاہیے اور اپنی ذمہ داریو ں کا احسا س بھی رکھنا چاہیے شکت کا سبب غفلت بھی ہو تی ہے ، جب تک حقائق سے آنکھیں بند رکھی جا ئیں گی تب تک دلو ں میںحسرت رکھنے والو ں کی جانب سے زہر بھر نشتر کی بوچھا ڑ رہے گی ایک زمانہ وہ بھی تھا جب قیا م پا کستان سے جنرل ایوب کے دور تک پاکستان کے ذرائع ابلا غ میں بھارت کے مختلف علا قوں سے بھو ک وا فلا س کی خبریں آیا کرتی تھیں ایس تصاویر اخبارت میں شائع ہو تی تھیں کہ جسم کپڑوں سے عاری ہو چکا ہے اور بھوک وافلا س نے ڈھیر سے پیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور کر دیا ہے غربت بھر ے چہرے ڈھیر کا کوڑا کرید کر ید کر بھو ک مٹانے کے سڑا بُسا نوالہ تلا ش کر رہے ہیں آج وہی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہو نے کا دعویٰ کر رہے ہیں ، یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان کا ایک ہمسایہ اس قدر معاشی طور پرمضبوط ہو گیا ہے پڑوس کی خوشحالی بھی پڑوسی کے لیے نعمت ہو تی ہے۔ اعداد وشما ر کے گھن چکر میں پڑے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر امریکا کے محفوظ ذخائر سے کہیں زیادہ ہیں ۔ زر مبادلہ کا دارومدا ر تجا رت کی کا میا بی پر منحصر ہے ، پاکستان کی معیشت کو جو داغ لگا ہے اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی درآمد اس کی برآمد سے کہیں زیا دہ ہے چنا نچہ محفوظ زر مبا دلہ درآمد ات پر خرچ ہو جا تا ہے باقی کیا بچتا ہے چین اور جا پان کی طر ح بھارت عالمی تجا رت پر چھائے جارہا ہے ، کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت نے مو ٹر سائیکل کی صنعت کو فروغ دیا اور اس کے لیے اس نے ایشیا اور مغرب سے ہٹ کر افریقہ میں ما رکیٹ تلا ش کی جہا ں بھارتی موٹر سائیکل کی مانگ بڑھتی چلی جا رہی ہے ، پاکستان کی بیر ونی تجا رت کس ڈگر پر ہے جس ملک میں توانائی کا بحران ہو قوت خرید کا مسئلہ ہو ، ٹیکس چور ی کو عروج حاصل ہو وہ بیرونی مارکیٹ کو کیا فراہم کر سکتا ہے، پاکستان کا محور صرف یو رپین یو نین ہے جہا ں بنگلہ دیش کے مانگ کی بڑی کھپت کے امکا نات موجو د ہیں گزشتہ دنو ں خارجی صورت حال جس طرح سیاسی ارباب حل وعقد نے پیدا کیے اور یو رپی یونین نے اس پر پاکستان کی طر ف سے منھ بسورا تب یہ خدشہ پیدا ہو چلا تھا کہ شاید یورپی یو نین پاکستان کی جا نب سے ہاتھ کھینچ لے یعنی پاکستان کی سبھی طاقت وروں کو ملکی مفاد زیا دہ عزیز نہیں ہیں وہ سب مفا دات کے پجا ری بن کر رہے گئے ہیں ، کیا پاکستان دنیا کی معیشت میں کوئی مقام پا سکتا ہے ، اس سوال کا ایک ہی جو اب ہے کہ پا سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نو ا ز رکھا ہے چنا نچہ اس کے لیے معیشت کو سیا ست کے دیو الیے پن سے الگ رکھنا ہو گا ، جو تازہ ترین خبر ہے اس کے مطا بق پاکستان اور آئی ایم ایف صرف دستخط ثبت کر نے کے فاصلے پر ہیںباقی مراحل طے کرلیے ہیں معاملہ اس امر پر اٹک گیا ہے کہ پاکستان نے زبانی طور پر یہ بات منو الی ہے کہ بجلی او ر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیںکیا جا ئے گا ، یہ ایک اچھی نو ید ہے۔ بات صرف قرضہ لے کر زرمبا دلہ کی شرح کو درست کرنے تک محدو د نہیں رہی ہے ، نہ ٹیکسز کے تسلسل کا مدار ہے بلکہ معیشت کو سنبھالادینے کے لیے سب سے پہلے مہنگائی کے عفریت کا گلہ گھونٹنا ہو گا ، عوا م کی قوت خرید کوبحال کر ناہو گی ، پاکستانی روپے کی قدر کو طاقت بخشنا ہو گی ، نئے معاشی وسائل کو تلا ش ہی نہیں کرنا ہو گا بلکہ اس سے بھر پو ر استعفادہ کی صلا حیت کو بھی بر وئے کا ر لا نا ہو گا ۔ یہ سب نہ کیے گئے تو قر ض کی مے مفت کی مے کی طر ح حلا ل نہیں ہواکرتی قر ض کی مے اپنا رنگ ضرور لے کر آتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟