باب پاکستان منصوبہ سیاست کی نذر کیوں؟

باب پاکستان منصوبے کی تعمیر اور والٹن روڈ اپ گریڈیشن کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پچھلے دور میں نیب بے گناہوں کو گرفتار کرتا رہا مگر باب پاکستان منصوبے میں کرپشن کو نہیں پکڑا۔ کھربوں کے منصوبے دفن ہو چکے لیکن کارروائی نہیں کی گئی، یہ دوہرا معیار نہیں ہونا چاہئے، باب پاکستان کا تاریخی مقام عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے، اس منصوبے پر ایک سو دس کروڑ روپے دفن ہو چکے ہیں، کسی نے کرپشن کرنے والوں کا احتساب نہیں کیا، پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے متحد ہو کر محنت کرنا ہوگی، حالات کٹھن ضرور ہیں مگر ہم سچے دل سے ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کریں گے تو یہ کشتی ضرور منجدھار سے نکل جائے گی، انہوں نے کہا کہ والٹن کے لوگوں نے تقسیم ہند کے موقع پر باب پاکستان منصوبے پر جس طرح سیاست کھیلنے کی کوشش کی اور جس کے نتیجے میں ملک و قوم کے110کروڑ روپے بقول وزیر اعظم اب تک کرپشن کی نذر ہو چکے ہیں یہ ہماری سیاست کا عمومی رویہ ہے اور اس کی وجہ تقریباً ہر دور میں سابق حکومتوں کے شروع کئے ہوئے اس نوعیت کے میگا پراجیکٹس کو یا تو سابق حکومتوں کو سیاسی فائدہ پہنچنے کے خوف اور منفی سوچ کے تحت یا تو بند کرنے یا پھر کم از کم التوا کی نذر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، یہ سوچے بغیر کے منصوبہ تو قومی مفاد کیلئے شروع کیا گیا تھا اور اس کی تکمیل سے عوام الناس ہی کو فائدہ پہنچے گا مگر سیاسی سکورنگ کا رجحان ہمارے ہاں اس قدر توانا ہو چکا ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کو ہر قدم پر نیچا دکھانے کی منفی سوچ کی وجہ سے چھوٹے بڑے منصوبوں کو کھڈے لائن لگا کر ان پر اٹھنے والے عوام کے ٹیکسوں سے ہونے والے اخراجات کو بے دردی سے ضائع کیا جاتا رہا ہے اور اگر کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہو تو اس پر اپنے ناموں کی تختیاں لگا کر ان کا کریڈٹ لینے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی ہے، اس منفی رویئے کی وجہ سے قومی وسائل ضائع اور حقائق بری طرح پامال ہوتے رہے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کے دعوے کے مطابق باب پاکستان منصوبے پر گزشتہ بیس پچیس سال کے دوران ان کا آٹھواں یا دسواں دورہ ہے، اس منصوبے کا سنگ بنیاد پہلی بار سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اس دور کے وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے1991ء میں رکھا،1997ء میں لیگی حکومت نے اسے دوبارہ آگے بڑھایا جس کا مطلب یہ ہوا کہ درمیان میں اس منصوبے کو یا تو نظر انداز کیا گیا یا اس پر کام سیاسی مفادات کی نذر ہو گیا، تب سے اب تک منصوبے پر اس غریب قوم کے 110کروڑ روپے ضائع کئے گئے، مگر یہ کھنڈرات سے آگے نہ بڑھ سکا، دریں اثناء گزشتہ ادوار میں90کروڑ روپے کی گرینائیٹ اٹلی سے اس کے مینار پر لگانے کیلئے منگوائی گئی، وزیر اعظم کے بقول اب تک اس منصوبے میں اربوں روپے کا غبن ہو چکا ہے مگر کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف نیب نے کیا اقدام کئے؟
وزیر اعظم نے بالکل درست کہا ہے کہ کیا ایک غریب ملک جہاں پر تعلیم کا حصول، ایک وقت کی روٹی کمانا اور ادویات کا مسئلہ ہو، وہاں90کروڑ روپے کی گرینائیٹ مینار پر لگا کر آپ دنیا کو کیا دکھانا چاہتے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے نظام کو دفن کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، جب تک پاکستان کے22کروڑ عوام مل کر ایسے نظام کو دفن نہیں کریں گے اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سابقہ دور میں ایک سو دس کروڑ روپے اس منصوبے پر کرپشن کی نذر ہو چکے ہیں مگر منصوبہ جوں کا توں ہے جس طرح ماضی میں اسے چھوڑ کر ہم گئے تھے، اس سے والٹن روڈ کے رہائشیوں کو فائدہ ہو گا جبکہ اب اس منصوبے پر سرکاری خزانے کا استعمال نہیں کیا جائے گا، جہاں تک بڑے منصوبوں کا تعلق ہے ان کی تکمیل قومی خزانے سے کی جاتی ہے، اس حوالے سے اب قومی سطح پر اتفاق رائے کو قانونی حیثیت دینے کی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے اور پارلیمنٹ سے ایسے قوانین منظور کئے جانے چاہئیں کہ آئندہ کوئی بھی ملکی مفاد کے تحت جو میگا پراجیکٹس شروع کرے، ان کو آنے والی حکومت صرف اس لئے بند کرنے کی کوشش نہیں کر ے گی کہ اس کی تکمیل کا کریڈٹ یہ منصوبے شروع کرنے والی کسی سابقہ سیاسی حکومت کو پہنچے گا کیونکہ منصوبے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ ملک و قوم کے مفادات، ملکی ترقی اور عوام کو روزگار دلانے کیلئے بنائے جاتے ہیں جن پر قومی خزانے سے بھاری اخراجات عوام کے ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں، اس لئے اگر آنے والی حکومت صرف سیاسی مفادات کے تحت ایسے منصوبوں کو ختم یا التوا میں ڈالنے کی کوشش کرے گی تو پارلیمنٹ اس کے ہاتھ روکنے کیلئے ضروری اقدام کرنے میں آزاد ہو اور وہاں” پارٹی پالیٹیکس” سے مبرا ہو کر آواز اٹھائے تاکہ قومی وسائل کے ضائع ہونے کا احتمال نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو