ناقص نظام طلبہ اور مہنگائی

ایک بزرگ قاری جن کا کہنا ہے کہ وہ علماء کو پسند کرنے والے اور اسلام پسند ہے لیکن ان کے مشاہدے کے مطابق بدقسمتی سے دینی مدارس کے طلباء اب کالجوں کے طلباء کے مقابلے میں زیادہ بہکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں نہ صرف ان کا انداز مہذب نہیں بلکہ ان کی گفتگواگر کانوں میں پڑتی ہے تو وہ ایسی لایعنی باتوں میں لگے ہوتے ہیں ایک دوسرے کواور دوسروں کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے کے قصے سنا رہے ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں کالجوں کے نوجوان طالب علم بزرگوں کا کم از کم لحاظ تو کرتے ہیں باقی نوجوانی کی عمر ظاہر ہے سنجیدگی کی نہیں ہوتی لیکن کم از کم مدارس کے طلباء چونکہ قرآن و حدیث کے طالب علم ہوتے ہیں کم از کم ان کا رویہ ان کا انداز لب و لہجہ اور گفتگو کالجوں کے طالب علموں سے تو بہتر ہونا چاہئے ۔ انہوں نے دینی مدارس کے منتظم ‘ مہتمم حضرات اور علمائے کرام سے بالخصوص اس جانب توجہ دینے کی گزارش کی ہے کہ دینی مدارس کے طالب علموں کو کردار و عمل کا نمونہ بنانے کی سعی کریں جس قسم کے طلبہ سے لوگوں کا اب واسطہ پڑنے لگا ہے اگر صورت خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو دینی مدارس کو لوگ عطیات دیتے ہوئے شاید سوچنے لگ جائیں گے ممکن ہے کہ یہ صرف ایک بزرگ شخص کے مشاہدات و تاثرات ہوں جن کو پورے مدارس کے طلباء پر منطبق کرنا مناسب نہ ہو گا لیکن مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق بہرحال علمائے کرام کو اس طرح کے منفی خیالات کا باعث بننے والے امور و حرکات کاتدارک کرنا ہوگا دینی مدارس کے طلباء ہوں یا کالجوں کے طالب علم اپنے اپنے درس گاہوں کے سفیر ہوتے ہیں اس لئے ان کو اس طرح کھلے عام ایسی گفتگو ایسے انداز اور حرکات سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اس کے باعث ان کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے لوگ غلط ا ندازہ اور منفی تاثر اپنائیں۔ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے پبلک سروس کمیشن اور ایٹا ٹیسٹ کے ذریعے اساتذہ کی تقرریوں اور منتخب ہونے والے اساتذہ کی قابلیت خاص طور پر ان کے پڑھانے کے انداز اور مضمون درس پر عبور کا جائزہ لیتے ہوئے نظام انتخاب کوناقص قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ خواہ وہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کے مقرر ہونے والے لیکچرار ہوں یا پھر ایٹا ٹیسٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے اساتذہ یہ سب جب تعلیمی اداروں میں پڑھانے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لکیر کے فقیروں کا چنائو کیا گیا ہے بھلے وہ فرسٹ ڈویژنرز ہوں گے اور ٹیسٹ بھی پاس کیا ہو گا مگرپڑھانے اور سمجھانے کی صلاحیت سے یکسر عاری نکلتے ہیں ان میں سے اگر کسی نہ کسی اچھے پبلک سکول میں سال دو سال پڑھایا ہو تو ہ تو ٹھیک ہوں گے جن کو کسی اچھے پبلک سکول والوں نے مسترد کیا ہو گا وہ خواہ کتنے بھی ڈگری ہولڈر ہوں وہ طالب علموں کوسمجھانے کے قابل نہیں ہوں گے ان کا لیکچراور پڑھانے کا انداردرست نہ ہوگا جبکہ ان کے مقابلے میں کم نمبروں والے جوان کے مقابلے میں منتخب نہیں ہو پاتے اور اتنا ہیں کہ ان کو کسی اچھے پبلک سکول میں پڑھانے کو مقرر کرنے کے قابل سمجھا گیا ہو گا وہ ان سرکاری سکولوں کے تحریری ٹیسٹ اور تعلیمی اسناد میں ممتازنمبر لینے والوں سے بدرجہا بہتر ہوں گے
کیونکہ ان کو اظہار کا طریقہ ‘ سلیقہ آتا ہوگا جو سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ میں عنقا ہے ہمارے تعلیمی نظام کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے جسے دور کرنے کے لئے اساتذہ کی تقرری کے لئے پہلے زبانی اور عملی کلاس روم میں پڑھانے کے مظاہرے پر پاس ہونے کے بعد ان کا تحریری ٹیسٹ لینے کی ضرورت ہے اس طرح میرٹ بنے گا تو ہی سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی اظہار کی قابلیت کے حامل اساتذہ آئیں گے ۔جہاں تک اس طرح کے ز بانی اظہار کے امتحان اورعملی طور پر کلاس کو پڑھانے کے بعد پاس کرنے کے عمل کی شفافیت کا سوال ہے یہ ایک مسئلہ ضرور ہو گا جس کا حل تلاش کیا جائے اس کا ایک طریقہ کار انجان اساتذہ مثلاً پنجاب سے اساتذہ کے بورڈ کے سامنے امیدواروں کو عملی پڑھائی کی جانچ کے لئے پیش کیا جائے تو اقرباء پروری و سفارش کا امکان کم ہوگا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کے امتحان یا ایٹا ٹیسٹ بالکل شفاف ہوتے ہیں تو ان کو اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے تھوڑی معلومات حاصل کرنا چاہئے ۔ میں بہت ایسے امیدواروں کی مثال دے سکتی ہوںجن کوسرکاری نظام تعلیم کا حصہ بننے کاموقع نہ دیاگیا مگر جب جامعات اور دیگر جدید تعلیمی اداروں میں انٹرویو ہوئے تو وہ پہلی ہی مرتبہ میں کامیاب ہوئے یہاں تک کہ غیر ملکی اور بڑے اداروں میں اچھی ملازمت میں بھی انہی کا انتخاب کیاگیا اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے نظام میں قابلیت رکھنے والوں کی نہیں رٹے ہوئے طوطوں کی قدر ہے ۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر کرنا ہے تو اس طریقہ کار میں تبدیلی لانی ہو گی۔ ایک
قاری نے مہنگائی کے اس دور میں جن لوگوں کے پاس موقع ہو ان کوکسی بڑے اور ہول سیل والے سٹور سے یکمشت سودا لینے کا مشورہ دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میں یہ نہیں کہتی کہ بڑے سٹور والے منافع نہیں لیتے وہ بھی ظاہر ہے تجارت کرتے ہیں لیکن ان کے منافع کی شرح نسبتاً کم شاید اس لئے ہوتی ہے کہ وہ دن میں بہت زیادہ اشیاء فروخت کرتے ہیں بہرحال یہ مہنگائی کا علاج نہیں بس ایک ٹوٹکہ ہی سمجھیں ان کا مشورہ ہے کہ کھانا کم پکایا جائے اور دسترخوان پراتنی خوراک چن دی جائے کہ گھر کے افراد ایک وقت میں ختم کرسکیں کم کھانا سنت اور صحت ہے اس کی ترغیب برسوں پہلے اس وقت دی گئی تھی جب ہر کسی کوپیٹ بھر کے کھانا دستیاب نہیں تھا اب ایسا نہیں بلکہ مہنگائی کے باوجودجیسے تیسے پیٹ بھر کھانا تو ملتا ہے اور جن کو یہ نعمت میسر ہے ان کو شکر ادا کرنا چاہئے اور جو تھوڑا بہت ایثار کا مظاہرہ کر سکیں ان کو ضرور اس کی کوشش کرنی چاہئے اس سخت مشکل وقت میں لوگوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی کرنی چاہئے کھانا ضائع بالکل نہ کیا جائے کھانے کی اشیاء کی قدر کی جائے اور چند لقمے ہی سہی بچا کر کسی کو کھلا دی جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ سب سے بڑی نیکی کسی کی پیاس بجھانے کا انتظام اور کسی کو چند لقمے کھانا دینا ہے بلاشبہ مہنگائی بہت ہے لیکن اگر معاشرے میں چارہ دست لوگ دوسروں کا خیال رکھیں اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ وقت بھی گزر جائے گا اور بعید نہیں کہ قدرت پھر حالات بہتر کرے حالات کی بہتری اور اچھی امید رکھنی چاہئے مایوسی ہونے اور شکایت کی بجائے شکر ادا کرنے اور دستگیری کی ضرورت ہے ایسا کرکے ہی ہم آسمان والے کی رحمت اور رحم کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری