داخلی صورتحال اور اقتدار کی رسہ کشی ، حل کیا ہے؟

وطن عزیز نے اپنی سیاسی تاریخ کے پچھتر سال مکمل کرلئے لیکن ہم بحیثیت قوم قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہ نہیں جان سکے کہ ہماری منزل کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے لئے کسی درست سمت کا تعین نہیں کرسکے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ہمارے اہداف کیا ہیں اور ان اہداف کے حصول کے لئے ہمارا طریقہ کار اور میکانزم کیا ہے۔ اسکی بنیا دی وجہ شاید یہی ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ سیاسی رسہ کشیوں، محاز آرائیوں، احتجاجوں، دھرنوں اور انتخابی بائیکاٹوں میں گزرچکا۔ اس دوران بے ھودہ نعرے، گالم گلوچ، اور سیاسی مخالفین کو سیاسی میدان میں ننگا کرنے کی روایات ہمارے سیاسی کلچر کے جزولاینفک بن گئے۔ اس سیاسی بے چینی اور معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں پوری دنیا میں ہماری بے توقیری ہورہی ہے اور ہم دنیا میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن میری دانست میں اسکی سب سے اہم وجہ ملک میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔
بدقسمتی سے قائد اعظم محمدعلی جناح کے بعد وطن عزیز کو بیدار مغز، جہاں دیدہ اور مخلص سیاسی قیادت میسر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنیوالی ناعاقبت اندیش سیاسی قیادت نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔ بڑی پارٹیوں کے سیاسی قائدین ایک دوسرے کو چوراور ڈاکو جیسے القابات سے نواز رہے ہیں اور اپنی جھوٹی انا کی تسکین اور سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ریاستی اداروں کو بے توقیر کررہے ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان، سیاسی کشیدگی اور اقتدار کی جنگ کے علاوہ محاصل اور معدنی ذخائر کے سوال پر کشیدگی نے حکومتی مشینری کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے سیاسی فضا مسلسل بے یقینی کا شکار ہے۔ چھوٹے صوبے اپنے وسائل پر اپنا حق مانگتے ہوئے وفاق کے روئیے پر احساس محرومی کا شکار ہیں۔بلوچستان گیس اور خیبر پختونخوا بجلی کی رائلٹی کے سوال پر وفاق سے دست وگریبان ہیں۔ نئے ضم شدہ اضلاع این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ مانگنے کے لئے آوازیں بلند کئے ہوئے ہیں۔ مایوسیوں اورمحرومیوں کے اسی احسا س کو لے کر ایک طرف علیحدگی پسند قوتیں عوام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں تو دوسری طرف دہشت گرد اپنے ہاتھ ہولے ہولے ملک کے طول و عرض میں بڑھارہے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے تین سو اکسٹھ کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جس میں دو سو آٹھ پولیس کے نوجوان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نفرتوں کے انہی چنگاریوں کو شعلہ بنانے کے لئے پڑوس کے ممالک بھی تیار کھڑے ہیں۔ پچھلے سال کی نسبت ہمارے مغربی سرحد پر مشرقی سرحد کی نسبت حالات زیادہ کشیدہ رہے ہیں ۔ بھارت اور افغانستان کے علاوہ ایران سے بھی ہمارے سیاسی مراسم اچھے نہیں ہیں۔ اور یوں وطن عزیز بین الاقوامی برادری میں تنہائی کا شکار ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مملکت خداداد معاشی بد حالی کی اس انتہا تک پہنچ چکی ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر گھٹ کر صرف چار ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمسایہ ملک ہندوستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت پانچ سو تریسٹھ ارب ڈالرسے تجاوز کرچکے ہیں اور دنیا کی پانچویں اقتصادی طاقت بن کر اقوام متحدہ کی مستقل رکن
بننے کے لئے پر تول رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم ایک سو تیس ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے جبکہ اندرونی قرضے اکیاون ہزار ارب سے تجاوز کرچکے ہیں۔ گردشی قرضوں کا حجم ستائیس سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔یعنی آسان لفظوں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں پیدا ہوتا ہر بچہ اپنے سر تقریبا دو لاکھ کا قرضہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی پوری دنیا کا مسلہ ہے لیکن پاکستان میں اسکے اثرات خطرناک حد تک محسوس کئے گئے ہیں۔ حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں سے وطن عزیز میں سینکڑوں اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، رہائشی مکانات، کاروبار، کھڑی فصلوں اور مال مویشیوں کی مد میں اٹھنے والے نقصانات کا تخمینہ تقریبا تینتیس ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کئی دہائیوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اسی ہزار قیمتی جانوں کے ضیاع کے علاوہ مملکت خداداد کو ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے وزیر اعظم ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے ہاتھ میں کاسہ لئے جب خیرات مانگنے جاتے ہیں تو اسلام کے نام پر بنے اس ملک کے خوددار مسلمان باسیوں کی خودداری مٹی میں مل جاتی ہے۔ ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں لیکن ملک میں توانائی کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے۔ ہم ایک زرعی ملک ضرورہیں لیکن ہمیں آٹے کی ایک بوری کے لئے دن بھر لمبی قطاروں میں کھڑاہونا پڑتا ہے۔ عجیب حیرت ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو، فلاحی تو درکنار، نہ ہم اسلامی ملک بناسکے، نہ جمہوری اور نہ ہی صحیح معنوں میں ایک مملکت۔انہی حالات میں عوام کا ریاستی
اداروں پر اعتماد اٹھ رہا ہے۔ عوام اور ریاستی ادروں کے درمیان بڑھتے فاصلے عوام کے اندر مایوسیوں اور محرومیوں کے ایک ایسے احساس کو جنم دے رہے ہیں جس سے عوام میں ملک کے لئے اجنبیت کا احساس دن بدن بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا فوج، عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں پرسے اعتماد اٹھ گیا ہے تو عوام کا قانون اور اسکے رکھوالوں پر اعتماد نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ ملک کے بڑے شہروں میں لوگ ڈکیتی کرتے چوروں اور ڈاکوئوں کو پکڑ کر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بجائے خود ہی انکا بھر کس نکالتے ہیں۔ آج سے پانچ سال پہلے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارنے والے ملیر کے سابق ایس ایس پی راو انوار کو پچیس ساتھیوں کے ساتھ باعز ت بری کردیا گیا۔ کیا ایسے اداروں اور ایسی سیاسی قیادت پر عوام اعتماد کرسکتے ہیں؟میڈیا کے ادارے بھی سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بن کر عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف جعلی خبروں کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے پھیلانے کے لئے میڈیا کو اس کھیل کے اہم کھلاڑی کی حیثیت سے استعمال کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاوس اور وزیراعظم ہاوس جیسے انتہائی حسا س مقامات کا ڈیٹا لیک ہورہا ہو۔سرکاری رہایشگاہوں میں خفیہ کیمروں کے ذریعے ارکان پارلیمان کی برہنہ تصویریں بنوائی جارہی ہوں تو اداروں پر عوام کا اعتماد کہاں سے آئے؟ سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور جن پر اربوں روپے کے کیسسز ہوتے ہیں وہ راتوں رات عدالتوں سے باعزت بری کئے جاتے ہیں۔ ریاستی اداروں میں کرپشن عروج پرہے۔ عدالتوں میں انصاف بک رہا ہے۔ تو عوام کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ ۔ (جاری ہے)

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری