” ملک و ریاست کی ضرورت و اہمیت”

لفظ انسان، اُنس سے ماخوذ ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اکیلے اور تنہا نہیں رہ سکتا، اس لئے انسانوں کے درمیان ایک فطری کشش رکھی گئی ہے جو انہیں اجتماعیت (معاشرتی و سماجی زندگی)کی طرف کھینچتی ہے، انسان کی معلوم تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انسان اجتماع کے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن اس ساتھ یہ سوال ذہن میں ضرور پیدا ہوتاہے کہ اجتماعیت کسی ضرورت اور اصوں کے تحت وجود میں آئی ؟ ۔
انسان کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کی صورت میں ارتقائی مراحل سے گزرے، مختلف قبائل اور گروہ ضروریات’ زبان’ حرکات و سکنات’ جغرافیہ اور آب و ہوا کے تحت وجود میں آتے چلے گئے، جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی چلی گئی ، ان کی معاشرت اور قبائلی زندگی میں ارتقاء و ترقی کے ساتھ اختلاف و تصادم کی وجوہات بھی پیدا ہوتی چلی گئیں۔
قبائلی و گروہی زندگی سے ایک قومی ریاست تک پہنچنے میں انسان بہت سارے مراحل اور تبدیلیوں سے ہوکر گزرا، ریاست کے وجود لئے انسانوں کے درمیان مشترک مفادات نے بنیادی کردار اداکیا لیکن اس کے ساتھ ہی ان ہی مفادات نے انسانوں کو جنگوں کی صورت میں بہت بڑا نقصان بھی پہنچایا یہاں تک کہ جب بیسویں صدی میں جدید قومی ریاستیں وجود میں آئیں تو ایک ہی جغرافیہ اور تہذیب و تمدن کے حامل ملکوں اور قوموں کے درمیان دو بڑی جنگیں برپا ہوئیں جس نے کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، انسانی تاریخ میں ارتقائی مراحل کی تکمیل کے بعد جغرافیائی حدود ، مذہبی عقائد اور مفادات نے بہت اہم کردر اداکیا ہے، اگرچہ بعض ماہرین عمرانیات اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں’ مثلاً ابن خلدون کے ہاں عصبیت کو اس سلسلے میں بہت اہمیت دی گئی ہے، جس قبیلے کی عصبیت مضبوط ہو اسے دوسرے کمزور قبائل پر غلبہ حاصل کرکے حکومت کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور یوں ایک اجتماعیت قائم ہوجاتی ہے بعض قوموں کے ہاں نسل کی بنیاد پر اجتماعیت کا حصول بہت اہمیت رکھتا ہے جس طرح یونانیوں اور بعض دیگر اقوام میں یہ چیز موجود رہی ہے اور معنی میں اب بھی ہے۔ بالخصوص یورپ میں جرمنی’فرنچ ریاستیں وغیرہ لیکن جدید عمرانیات کی ضروریات اور تقاضوں نے نسلیت اور قومیت میں بھی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔
اجتماعیت کے اسباب میں روحمانیات کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، مادی ضروریات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن مذہب اور عقائد اجتماعی انسانی کی سب سے بڑی بنیاد رہی ہے، انسانی تاریخ میں اسلام نے اس سلسلے میں جو کردار ادا کیا اور کوئی عنر و عامل وہ کام کر نہیں سکا ۔اسلام نے وطن ‘ جغرافیہ ‘ نسل ‘ زبان وغیرہ کے سارے امتیازات و اختلافات مٹاکر رکھ دیئے، عرب اور عجم کو ایک ملت میں پرو کررکھ دیا۔
وطن عزیز پاکستان بھی اسی اہم اساس پر قائم ہوا اسی سبب سے پورے برصغیر کے مختلف خطوں’ زبانوں اور نسلوں کے لوگوں نے مل کر پاکستان کے حصول کے لئے قربانیاں دیں اور یہی وجہ تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان اپنے درمیان ایک ہزار کلو میٹرکی بعد اور لسانی فرق کے باوجود ایک ملک کی صورت میں وجود میں آئے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ جب روحانیات (اسلام) ا یہ رشتہ کمزور پڑ گیا تو مشرقی پاکستان تو بنگلہ دیش کے نام سے الگ ہو گیا باقی ماندہ پاکستان میں ایک طرفہ تماشہ آج تک برپا ہے، جدید ریاست میںمعاملات و کاروبار زندگی چلانے کے لئے مختلف ادارے وجود میں آئے اور ان اداروں کے قیام کے لئے دنیا بھر میں بڑی بڑی شخصیتوں نے بڑی قربانیاں دیں امریکہ میں جمہوری اصولوں کے تحت سیاہ فاموں کے بنیادی حقوق کے لئے ابراہام لنکن نے اپنی جان کی قربانی دی تھی، گاندھی نے بھی ظاہری سہی’ اہنسا اور پاکستان کو اس کے حصے کے حقوق دینے پر ہی آرایس ایس کے رکن گاڈ سے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اس لئے کہا جاتاہے کہ ادارے بہت مقدس اور اہم ہوتے ہیں ‘ شخصیات اور افراد کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن اگر ادارے کمزور پڑ جائیں تو پھر وہ ریاست جو انسانی اجتماعیت کی حفاظت کا ضامن ہوتی ہے ‘ منتشر ہونے کے خدشات سے بھی دوچار ہوسکتی ہے ۔ کسی بھی ریاست کی حفاظت اور استحکام کے لئے عدلیہ ‘ مقننہ اور دفاعی و عسکری ادارے لازمی ہوتے ہیں لیکن سب سے بڑھ کر کسی بھی ملک و قوم کے درمیان اجتماعیت کے اصولوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت شاید پہلی دفعہ ان تینوں اداروں کے حوالے سے جو صورتحال بنی ہے وہ اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ دراصل پاکستان میں اس وقت سخت قحط الرجال ہے، ذرا 60 کے عشرے سے 80 کے عشرے تک ہمارے دانشوروں ‘ سیاستدانوں اور علماء کرام کی فہرست پر نظر ڈالیں اور آج پارلیمان اور سیاست کے میدان میں ”نابغہ روزگاروں ” کو ملاحظہ فرمائیں۔
پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ) کتنا خوبصورت نام ہے لیکن اس کے اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ کا تماشا دیکھئے کہ راجہ ریاض اس کے نام نہاد حزب اختلاف کا لیڈر ہے عدم اتفاق و انتشار کا یہ حال ہے کہ اسی پی ڈی ایم کے کئی ایک ”معتبر” رہنما کل کلاں اٹھتے بیٹھتے عمران خان کو طنزیہ کہا کرتے تھے کہ پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں توڑو’ ہم انتخابات کرا دیتے ہیں لیکن جب اسمبلیاں توڑ دی گئیں تو اب سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر انتخابات کے نام سے کتراتے ہیں اور اسی تناظر میں مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر اور دیگر رہنمائوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو متنازعہ بنا کر رکھ دیا ہے، یہ کتنی خطرناک بات ہے ‘ اس کا نتیجہ عوام کے سامنے مستقبل قریب میں ظاہر ہوگا۔
ہماری انتظامیہ کو سیاست دانوں نے اتنا آلودہ و ملوث کر دیا ہے کہ ان سے قانون پر عمل درآمد ہونا ہی مشکلات میں تبدیل ہوگیا ہے، یہی حال سب سے اہم اور منظم ادارے کا ہے جس کے کاندھوں پر اس نازک دور میں ملکی دفاع و حفاظت کی ذمہ داریاں ہیں، کسی بھی سچے پاکستانی کی زبان پر عسکری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف کوئی نامناسب لفظ نکلنا کسی صورت مناسب نہیں لیکن صورتحال سب کے سامنے ہے کہ آج اس حوالے سے جو کیفیت ہے وہ اس سے پہلے سننے دیکھنے میں نہیں آئی’ اب جبکہ خرابی بسیار کے بعد سپریم کورٹ نے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم صادر فرمایا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز کو مزید خرابی سے بچانے کے لئے عام انتخابات اس ا نداز میں کرائے جائیں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے ۔ اس سے جہاں ملک مشکلات سے نکلے گا وہاں اجتماعیت بھی بحال ہو گی اور نتیجتاً اداروں کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت