قومی مکالمہ ناگزیر

ملک میں جاری حالات پرہر محب وطن پاکستانی کی تشویش بجا ہے۔ وطن پر ستوں کی یہ تشویش بے جا نہیں اس طرح کے متفکر لوگ آپ کو ہر جماعت میں ملیں گی خواص اور اشرافیہ کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہوتے ہیں ا لبتہ ایک عام آدمی کا اس ملک کے سوا کچھ نہیں ایسے میں ان کی تشویش و فکر اور اپنی بقاء کے لئے فکر مندی فطری امر ہے ۔ آج ہر آدمی کے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ آخر اس سیاسی جنگ میں ملک مزید کتنا متاثر ہوگا اور نظام عدل سے لے کر انتظام کاری تک کے شعبے مزید کس قدر متاثر اور سوالیہ نشان بنے رہیں گے۔ سوچتا ہر آدمی ہوگا اشرافیہ بھی اس ملک سے ہے اور صنعتکاروں و تاجروں کو تو ملک میں ذرا سی بھی پریشان کن حالات راس نہیں عام آدمی ہویا متوسط طبقہ امن و امان اور استحکام ہر کسی کی ضرورت اور مطلوب ہے ظاہر ہے حکومت کی ذمہ داری ہی ملک میں امن و استحکام کا قیام اور اس کی حفاظت ہے کسی سیاسی جماعت کو بھی اس کا الزام نہیں دیا جا سکتا کہ ان کو یہ سب کچھ مطلوب نہیں ہو سیاستدانوں کو بھی معتوب ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں اچھے بھلے ملک کا نظام ابتداء میں بگاڑنے کا عمل کہاں سے شروع ہوا اور اس کے کردار کیا تھے ان کے مقاصد کیا تھے اب تو ایسا کرنے والوں کی بھی توبہ ہو گئی ہو گی مگراب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعد از خرابی بسیار اب اس ملک میں کاروبار زندگی کو معمول پر لانے کے لئے کیا کیا جائے ایسا کوئی مستقل انتظام جس کے بعد خلل نہ آئے میرے خیال میں اس کا بہترین حل مکالمہ ہے صرف سیاستدانوں کے ساتھ نہیں بلکہ وہ پس پردہ کردار بھی اب پس پردہ چلے جائیں اور سیاستدانوں کے درمیان کھلی فضا میں مکالمہ کی راہ ہموار ہو اور وہ کوئی ایسا میثاق کر اٹھیں کہ اس پر عمل کرنے میں ان کوکسی جانب سے مداخلت کے خدشات نہ ہوں جو ہوا سو ہوااب اس ملک کی اس ریاست کی بقاء کا سوال ہے اور یہ کوئی روایتی کہا ہوا جملہ نہیں پھر بھی یاد دلادوں کہ وزیر خزانہ ا سحاق ڈار نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر میزائل رینج کم کرنے کی ڈکٹیشن کا تو قوم کو بتا دیا۔ وہ کس جماعت کے وزیر خزانہ ہیں یہ مت دیکھا جائے وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں کہہ رہے ہیں اس پر غور کی ضرورت ہے وہ جو کہہ رہے ہیں اس کا تعلق نہ اس کی ذات اور نہ ہی ان کے سیاسی اتحاد ہے اس بات کا تعلق ملک عزیز پاکستان اور یہاں بسنے والے بائیس کروڑ عوام سے ہے اس طرح کے دبائو کی نوبت معاشی صورتحال کے باعث آئی تو بجائے اس کے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں ماضی کی حکومتوں کو مطعون ٹھہرانے اور خود کو بری الذمہ قرار دینے کا طرز عمل اپنائیں یہ وقت اس کا نہیں بلکہ یہ وقت مکالمہ کے ذریعے ان حالات کے مقابلے کا ہے کم از کم ملک میں تو سیاسی کشیدگی اور تھوڑ پھوڑ املاک کو پہنچنے والے نقصانات سے تو اب باز آیا جائے ضد اور انا کی دیواریں اب بھی اتنی اونچی ہیں کہ ان کو گرانے پر کوئی تیار ہی نہیں ان کو پھاندنا بھی مشکل نظر آتا ہے المختصر ملکی مسائل گھمبیر ہیں بحران سے نکلنے کا راستہ سیاسی مکالمہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ سیاستدانوں کو یہ بتانے کی بھی اب ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ جمہوری معاشروں میں مشکلات پر قابو پانے کے لئے سیاسی جماعتوں اور مختلف الخیال افراد کے درمیان گفت و شنید آخری چارہ کار نہیں بلکہ پہلا درجہ ہوا کرتا ہے مگر ہمارے ہاں گفت و شنید اور مکالمہ کو آخری حربہ بنا دیا گیا ہے ملک جس دوراہے پر آج کھڑا ہے کیا اب بھی سیاسی مکالمہ شروع کرنے میں کوئی کسرباقی رہ گئی ہے مسائل کے حل واسطے مذاکرات کی میز پر آنے میں جتنی دیر لگے گی اتنے ہی معاملات کی پیچیدگی اور دوریوں میں اضافہ ہوگا ریاست میں اختلافات جیسے بھی ہوں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے جنگوں کا نتیجہ بھی میدان جنگ کی بجائے مذاکرات میں برآمد ہوتا ہے ۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ سیاستدان بیانات کی حد تک تو مکالمہ پر آمادگی کا اظہار کرنے لگے ہیں سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر سیاسی و اقتصادی بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہئے شاخ زیتون پیش کرنے اور اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے اس کے لئے ماحول کو ساز گار بنانے کے لئے ہر جانب سے کوششوں کی ضرورت ہے جس کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے اختلافات کیا ہیں سوائے اس اختلاف کے کہ انتخابات کا انعقاد قبل از وقت ہو یا پھر مقررہ وقت پر ۔اس کے لئے کیا کیا جتن ہو رہے ہیں کس کس طرح کے حربے اختیار کئے گئے کیا یہ سب دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ خواہ وہ تحریک انصاف ہو یا پھر پی ڈی ایم ان کی سیاست کا محور کرسی اور اقتدار کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتا ہے ان کو تو ا قتدار کے علاوہ تو کچھ نظر بھی آتا دکھائی نہیں دیتا ۔ ایک فرق چار پانچ ماہ کے اقتدار کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں تو دوسرے فریق سے چار پانچ ماہ کا انتظار مشکل ہو رہا ہے وہ کسی نے بڑا زبردست جملہ کہا ہوا ہے کہ یہ زمین ر ہے گی اور یہ ملک رہے گا تو اقتدار کی کرسی رکھنے کو جگہ ملے گی خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا تو اقتدار کی کرسی ہو ا پر تو نہیں رکھی جا سکتی ۔ پھر انتخابات کا انعقاد کس مردم شماری کے تحت ہوں ملک میں امن و امان کی صورتحال کیا ہے وغیرہ وغیرہ قسم کے حربے یا پھر حقیقتیں بھی اختلافات کا ایک حصہ ہیں۔ چھوٹے قد کے گورنر خیبر پختونخوا نے سیاسی طور پر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے مقصد پر خیبر پختونخوا کی صورتحال کا جونقشہ پیش کیا ہے اگر اسے حقیقت گردانا جائے تو پھر اٹک پل کے اس طرف تو حکومتی عملداری کی بجائے کسی اور کی عملداری قائم ہے ایسا ہرگز نہیں اور اگر واقعی ایسی صورتحال ہے تو پھر حکومت کہاں ہے اور موصوف گورنر ہائوس میں کیا کر رہے ہیں وہ وفاق کے نمائندے ہیں اور وفاق میں ان کی جماعت اقتدار کا بڑا حصہ دار ہے پھر ان کے متذکرہ عناصر کے خلاف کیوں قدم اٹھانے میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ کم از کم میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں لے دے کے کوئی ہزار بارہ سو افراد کی واپسی ہی ہوئی ہو گی ان سے نمٹنا کوئی مشکل نہیں ۔ مجھے وہ دن اور حالات بخوبی یاد ہیں اور اس وقت میں بھی خیبر پختونخوا ہی میں تعینات تھی زیادہ تفصیل میں جانا مناسب نہیں بس اتنا کافی ہوگا کہ اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا ہوتا تو آج گورنر ہائوس کا مکین کوئی اور ہوتا اور جن حالات کا گورنر آج بتا رہے ہیں خدانخواستہ اس میں حقیقت ہوتی وہ مشکل دن گزر چکے ہیں کتنے لوگوں نے قربانیاں دیں کس کس نے دن رات ایک کرکے حالات کا پامردی سے مقابلہ کیا اس کا اگر ادراک و احترام ہوتا تو آج محض سیاست بازی کے لئے حالات کو اس قدر گھمبیر ظاہر نہ کیا جاتا۔
سیاست کو سیاست اور جمہوریت کو جمہوریت سمجھا جائے خواہ مخواہ حالات کی اتنی بری تصویر پیش نہ کی جائے کہ بھارتی میڈیا کا گمان گزرے ۔
حالات سنور سکتے ہیں بس مکالمہ اور شاخ زیتوں دینے اور اسے قبول کرنے کی دیر ہے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے