دعا مانگنے کے آداب

ُپٹھان روزے سے ہیں انتظار فرمائیے !

(سیدفخرکاکاخیل)صوبے میں رمضان المبارک سے قبل ہی تبدیلیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے حوالے سے آخر کار صاف کہہ دیا کہ ان کے لیے موجودہ صورتحال میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے بھی ایک خط میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کا حوالہ دے کر استدعا کر دی ہے ان کو بھی اکتوبر تک کی مہلت دی جائے۔ اس لیے یوں سمجھ لیں کہ بات اکتوبر 2023ء تک چلی گئی۔شاید اس لیے جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قہقہہ مار کر کہا تھا کہ قبل از وقت الیکشنز نہیں ہوں گے۔ اب ظاہری بات ہے کہ تحریک انصاف بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ وہاں سے جو بھی جواب ملے گا اس پر آگے عمل درآمد کرنا سرکار کا ہی کام ہوگا۔ تحریک انصاف کیا کر سکتی ہے۔ رمضان المبارک سے قبل زمان پارک اور اسلام آباد کچہری میں جو کچھ ہوا وہ خیبرپختونخوا میں ہونا مشکل ہے۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا تھا کہ خیبرپختونخوا سے کارکن لائے گئے ہیں بلکہ سوات کے ایک شہری کی موجودگی پر کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کو زمان پارک لاہور لایا گیا ہے۔ بہرحال روزوں کے باعث تحریک انصاف اگر عوامی مزاحمت کا راستہ اپناتی ہے تو ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پشتون رمضان المبارک میں ایسی کسی تحریک کو گھاس نہیں ڈالتے۔ اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کورمضان المبارک میں اس صوبے سے کسی بڑے چیلنج کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔
سیکیورٹی ذرائع کا ماننا ہے کہ پختونخوا میں یقیناً سیکیورٹی ایک مسئلہ ہے۔ ماضی میں سیاسی اجتماعات کو، سیاسی کارکنوں کو اور سیاسی قائدین کو نشانہ بنانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ پھر ایسے ماحول میں کہ عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں داخل ہو چکی ہے ان سے نمٹنا سیکیورٹی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔ جب تک ان خطرات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا جلد الیکشن کرانا خطرات سے خالی نہیں ہوگا۔ چند مہینوں کی تاخیر سے خطرات مکمل ختم تو نہیں ہوں گے لیکن اس میں کمی آ نے کی توقع رکھنی چاہئیے ۔
رمضان المبارک سے قبل ہی چیف سیکرٹری پختونخوا کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔دراصل جن دو گھروں کا ذکر ان صفحات پر ہوتا رہتا ہے ان کی جانب سے آغاز میں ہی چیف سیکرٹری پر بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا دباؤ تھا۔ وہ مسلسل خود کو اس سے دور رکھ رہے تھے۔ دراصل چیف سیکرٹری کا یہ ماننا تھا کہ حال ہی میں پوسٹنگ ٹرانسفرز ہو چکی ہیں اس طرح چند ہی ہفتوں میں ایک بار پھر یہ پوسٹنگ ٹرانسفر بیوروکریسی کے لیے ایک مذاق بن جائے گا۔ ویسے دیکھا جائے تو عمومی طور پر صوبے کی بیوروکریسی جس زوال کا شکار ہے جلد ہی اگر سنبھالی نا جا سکی تو ایک مذاق بن سکتی ہے۔ انتہائی سطحی سوچ کے افسران کا جنم گزشتہ دس سالوں میں ہوا ہے جو کارکردگی سے زیادہ ڈیجیٹل امیج پر یقین رکھتے ہیں۔ بہرحال چیف سیکرٹری کو راہ راست پر لانے کے لیے وزیراعظم شہبازشریف تک آواز دی گئی۔ ان کی جانب سے ہدایات کے بعد موجودہ گورنر اور سابق وزیر اعلیٰ کی کچھ کچھ مان لی گئی۔ تاہم پھر خود چیف سیکرٹری تنگ آ گئے۔ ایک جانب گورنر دوسری جانب نگران اور سابق وزرائے اعلیٰ اس کے لیے چلنا روز بہ روز مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ان کے ٹرانسفر میں خود چیف سیکرٹری کی خواہش زیادہ تھی۔ اب صوبہ نئے منتظم اعلیٰ کے پاس ہے اور رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا ہے۔ نگران وزیراعلی کی جانب سے جو مفت راشن کا اعلان کیا گیا پہلی رمضان کو ہی اس کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ تو حالت ہے صوبے کے نظم ونسق کی۔ جامعہ پشاور اور اسلامیہ کالج چوکیداروں کے ہاتھوں اسٹاف کی ہلاکتوں کے بعد بند رہے۔ اساتذہ سراپا احتجاج رہے لیکن مجال ہے کہ گورنر، پی ڈی ایم، تحریک انصاف، نگران وزراء کی فوج میں کسی کو فرصت ملی ہو کہ وہ ان مظاہروں پر جا کر اپنی شکل دکھا سکیں اس موقع پر ان اساتذہ کو یہ احساس دلا سکیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔
ذرائع کے مطابق صوبے کی مالی معاملات انتہائی ابتر ہیں۔ جو عوامی منصوبے تحریک انصاف نے شروع کیے تھے ان کے لیے اربوں روپے کے قرضوں کی واپسی ایک طرف ان منصوبوں کو چلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ صحت کارڈ کی فراہمی تو دراصل صحت کی بیمار پالیسی تھی۔ اس پالیسی کے تحت صوبے نے باقاعدہ ایک رقم انشورنس کمپنیوں کے پاس جمع کرانی ہے۔ ابتدائی رقم تو ایک جرمن بینک کے تعاون سے جمع کرائی گئی۔ تحریک انصاف حکومت میں وزیرصحت تیمورجھگڑا اور عمران خان کے قریبی رشتہ دار نوشیروان برکی کی پالیسیوں کے باعث غیر معیاری نجی ہسپتال کھولے گئے۔ ان کو کروڑوں روپوں کی ادائیگیاں کی گئیں۔ اب جب صورتحال سامنے آ رہی ہے تو ان ہسپتالوں کو صحت کارڈ کی فہرست سے دھڑا دھڑ نکالا جا رہا ہے۔ کئی ہسپتالوں کو تو یہ کہا گیا ہے کہ یہ صحت کارڈ حکومت کے گلے کا پھندہ بن چکا ہے۔ حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ان ہسپتالوں کو ادائیگی کر سکے۔
دوسری جانب کابینہ اجلاس میں ایم ٹی آئی پر اعتراضات سامنے آئے۔ فی الوقت فیصلہ کیا گیا ہے کہ بتدریج ان ہسپتالوں کے بورڈز کو ہٹایا جائے گا۔ گویا جو کام تحریک انصاف کر رہی تھی اب جمیعت علمائے اسلام یا پی ڈی ایم کرے گی۔ پختونخوا میں تو خیر پی ڈی ایم کا مطلب ہی جمیعت علمائے اسلام ہے کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی تو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہیں۔ بہرحال بورڈز کی تبدیلی کا مطلب اب تحریک انصاف کی طرح ہسپتالوں کی تباہی یہ جماعتیں اپنے اپنے "بندوں” کی بورڈز میں بھرتی کے ذریعے کریں گی۔ ویسے صوبے کے باسیوں کو یہ دیکھ کر معلوم ہوجانا چاہیئے کہ کتنا فرق ہوتا ہے ایک منتخب حکومت کی حکمرانی کا اور ایک نگران حکومت کی کارکردگی کا۔ حال ہی میں یہ گناہ بے لذت دیکھ کر وزیراعلی کے خصوصی مشیر ہدایت اللہ خان نے نجی مصروفیات کا بہانہ بنا کر نگران حکومت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس پورے سلسلے میں اگر کہیں حکومت انفرادی طور پر نظر آئی تو نوشہرہ سے پی پی پی کے سابق امیدوار صوبائی اسمبلی اور موجودہ نگران وزیر فیروزجمال کی پریس کانفرنس کے دوران نظر آئی کہ جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ کس طرح تحریک انصاف حکومت نے پارٹی تشہیر کے لیے صوبے کے اسی کروڑ روپوں سے سوشل میڈیا ٹرولرز کی فوج بھرتی کی ۔ صوبے میں اخبارات اشتہارات کا رونا روتے رہے اور تحریک انصاف حکومت اپنے ورکرز اور باہر سے آنے والے کنسلٹنٹس پر اربوں روپے امیج بلڈنگ کے نام پر لٹاتی رہی۔ ویسے اس پریس کانفرنس میں کسی نے وزیر موصوف سے پوچھا نہیں کہ یہ جو لوٹ مار ہوئی ہے اس کی ریکوری اب کیسے ہوگی اور آگے بجٹ میں رکھے گئے ان پیسوں کے ساتھ کیا ہوگا؟شاید پوچھا ہو ہم نے دھیان نا دیا ہو۔مسئلہ اب رمضان المبارک میں مہنگائی کے طوفان کا ہے۔ کسی زمانے میں ضلعی انتظامیہ ہوا کرتی تھی اس کے خاتمے سے اب سارا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ نوجوان اسٹنٹ کمشنرز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی خاطر کالی عینک لگائے باہر نکل کر رعایا کا حال پوچھتے تھے اب تو وہ بھی نہیں رہا۔نگران حکومت کی طاقت ایک تو محدود ہوتی ہے اور دوسری اس صدی میں میڈیا پر نا ہو تو کہیں نظر نہیں آتی۔ اس لیے حکومت ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے ۔ اس لیے اب لگتا ہے کہ عیدالفطر کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا جو ایک لحاظ سے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا۔

مزید پڑھیں:  بانی پی ٹی آئی پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں، شیر افضل مروت