لاحاصل تگ و دو

قومی اسمبلی نے انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے اور وزیراعظم سمیت کابینہ سے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے مطالبے کی قرارداد منظور کرلی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتا اور وزیراعظم سمیت کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین و قانون فیصلہ پر عمل نہ کیا جائے، یہ ایوان دستور کے آرٹیکل63اے کی غلط تشریح اوراسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسر نو تحریر کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ عدالت عظمی کا فل کورٹ اس پر نظر ثانی کرے۔قرارداد کی مخالفت میں تحریک انصاف کے رکن نے کہا کہ اس ایوان کو عدلیہ کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ غلط روایت ڈال کر ہم اجتماعی طورپر توہین عدالت کا باعث بن رہے ہیں، عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات پر یہاں بات نہیں ہوسکتی۔ اس بات پر اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ فیصلے کے بعد بات ہوسکتی ہے جس پرفاضل رکن نے کہا کہ کیا ہم پارلیمان اور عدلیہ کی جنگ چاہ رہے ہیں؟ ۔ دریں اثناء الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔الیکشن شیڈول جاری ہونے کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں انتخابات مقررہ وقت پر ہو پائیں گے یا نہیں۔ اس ابہام کی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے سامنے آنے والا یہ موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے جس پر اطلاق حکومت پر لازم نہیں۔وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے اس اصرار کے باعث نہ صرف الیکشن کے بروقت اور عدالتی احکامات کے تحت انعقاد پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے بلکہ حکومتی حکمت عملی کے باعث پارلیمان اور عدلیہ میں ایک نئی محاذ آرائی کا خدشہ جنم لے چکا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف بحرانوں سے عبارت ہے اور انتخابات بارے بھی متضاد فیصلے موجود ہیں تاہم اس سے قطع نظر یہ اپنی نوعیت کا یہ الگ سا بحران ہے جس میں عدلیہ خود تقسیم کا شکار ہے۔کیا حکومت پارلیمان کی مدد سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد سے بچ سکتی ہے؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر حکومت اس حکمت عملی کے تحت سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کرتی ہے تو عدالت کے پاس کیا راستہ باقی بچے گا؟واضح رہے کہ حکومت کے مطابق الیکشن کا انعقاد ایک جانب تو آئینی معاملہ ہے تو دوسری جانب اس کے انعقاد میں مالی مسائل بھی رکاوٹ ہیں جبکہ ملک کی سکیورٹی صورتحال کو بھی بطور جواز پیش کیا جا رہا ہے۔اس معاملے پر قانونی ماہرین کی رائے بھی مختلف ہے ایک رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم اس حد تک بائنڈنگ ہوتا ہے کہ اگر اس کو سپر سیڈ کرنا ہو تو صرف آئینی ترمیم سے کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی حیثیت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی قانون یا آئین کے تحت دیا جائے جبکہ یہ فیصلہ صرف تین ججوں کا ہے جن کو یہ آئینی اختیار ہی نہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ دیں۔قومی اسمبلی کی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں سپریم کورٹ اس فیصلے کے اقلیتی فیصلہ ہونے سے قانونی ماہرین کو اتفاق نہیں ہے کہ اقلیتی فیصلہ نہیں ہے۔دوسری جانب کی دلیل ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کی حیثیت تب ہوتی ہے جب وہ کسی قانون یا آئین کے تحت ہو۔قانون اور آئین میں سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا گیا۔قانونی ماہرین کے مطابق اگر حکومت اپنے موقف پر قائم رہتی ہے اور پارلیمانی قرارداد کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کرتی ہے تو عمومی صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ عدالت ایسے معاملات میں ہمیشہ تحمل اور برداشت سے کام نہیں لیتی اگر ضرورت ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے جو صرف ان لوگوں تک محدود ہو گی جن کا الیکشن کے انعقاد میں کوئی براہ راست کردار ہے۔جو متعلقہ بیوروکریسی کے سربراہان ہیں، جنھوں نے یہ سب کام کرنے ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے عدالت ان تک محدود رہے۔حکومت اور پارلیمان کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے حکم پر سنجیدہ قانونی اعتراض کا تو تقاضا اور قانونی و عدالتی حل یہی رہ جاتا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کرکے لاجر بنچ یا فل کورٹ کی استدعا کرے مگر حکومت اس پرتیارنہیں بلکہ حکومت اس فیصلے پر سیاست کرنے کافیصلہ کر چکی ہے اور وہ اس ضمن میں اقتدار تیاگ دینے پربھی تیار ہے لیکن عدالت اس حد تک نہیں جائے گی بلکہ حسب سابق تحمل کا مظاہرہ کرنا ہی مصلحت ہوگی لیکن اگردوسری صورت جس کا امکان اس لئے بھی کم ہے کہ خود عدالت عظمیٰ کے ججوں میں بھی شدید اختلافات کاعملی مظاہرہ ان دنوں سامنے آیا ہے ایسے میں محاذ آرائی کا بھی امکان ہے مشکل امر یہ ہے کہ یہ ساری صورتحال اپنے ہاتھوں کا قائم کردہ ہے اور کوئی بھی فریق معاملہ اس سے نکلنے پر آمادہ نہیں لیکن بہرحال اس اونٹ نے کسی کروٹ بیٹھنا ہی ہے لیکن اس وقت تک جس قسم کے حالات سے ہم گزریں گے وہ حکومت عدلیہ اور ملک و قوم سبھی کے لئے کوئی خوشگوار صورتحال نہ ہو گی توقع کی جا سکتی ہے کہ اس ڈرامائی صورتحال کا اختتام بھی ڈرامائی ہوگا اور یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں رہے گی۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم