”ازخوابِ گراں خوابِ گراں خواب ِ گراں خیز”

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تمام تر دبائو اور وقت کی خود سر ہوائوں کے رخ اور اُفق کے رنگ ،طاقت کی پیشانیوں پر اُبھری گہری شکنوں کو دیکھے بغیر آئین پاکستان کے تحت دوصوبوں میں نوے دن میں الیکشن کرانے کے حق میں فیصلہ سنادیا ہے ۔سپریم کورٹ کو اس فیصلے سے باز رکھنے کے لئے ہزار عذرہائے لنگ اپنائے گئے ۔دھمکیوں اور دھونس کا سہار ا لیا گیا ۔عدلیہ کے اندر بغاوت اور تقسیم کا سامان کیا گیا تکینکی بہانے بازیوں کا سہار ا لیا گیا مگر جسٹس عمر عطا بندیال نے تاریخ کے اس موڑ پر نظریہ ٔ ضرورت کو دوام بخشنے سے انکار کرکے اپنا وزن آئین پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا جہاں دوٹوک انداز سے لکھا ہوا ہے کہ نوے دن میں انتخابات لازمی ہیں ۔آئین کی اس غیر تشریح کیفیت کو دیکھتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا تھا کہ یہ تو پانچ منٹ میں سنایا جا نے والا فیصلہ ہے ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے پاکستان کا آئین غیر مبہم اور واضح ہے ۔آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ اگر عمران خان کے کہنے پر چوہدری پرویز الٰہی اور محمود خان اسمبلی توڑیں گے تو نوے دن میں انتخابات لازمی نہیںہوں گے اور اگر جنرل ضیا الحق غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری اسمبلی توڑیں گے تونوے میں انتخابات منعقد ہونا لازمی ہوں گے ۔آئین کسی چہرے اور رنگ ورُوپ ، نام ونسب جاہ ومنصب سے ماورا اور بے نیاز ہو کر اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوے دن میں انتخابات کی بات کرتا ہے ۔آئین یا تو بحال ہوتا ہے یا معطل ؟اگر آئین معطل نہ ہو تو اسے بحال سمجھا جاتا ہے اور اس کیفیت میں تمام فیصلے اسی سبز کتاب کے تحت ہونا لازمی ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے پراسے جوش جذبات میں نظریہ ٔ ضرورت کی موت کہا جارہا ہے ۔ شاید ایسا بھی نہیں نظریہ ضرورت اس فیصلے سے بے ہوش تو ہوا ہے مرا نہیں ۔یہ نظریہ اس وقت مرے گا جب ریاست آئین ِنو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے کی روش ترک کرکے نئے تقاضوں اور نئی نسل کی بدلی ہوئی سوچوں کے ہم رکاب ہونے کا فیصلہ کرے گی ۔نظریۂ ضرورت جسٹس منیر کی قیادت میں پاکستان کی عدلیہ میں مارشل لاء کو وقت کی ناگزیر برائی اور وقت کی ضرورت قرار دے کر قبول کرنے کے فیصلے سے شروع ہوا تھا اور پھر باقی تمام عمر یہی نظریہ پاکستان کا اصول آئین اور سیاسی اقدار کا لازمی حصہ بن کر رہ گیا ۔جو نظریہ محض ایک بار تریاق کے طور پر اپنایا گیا تھا پھر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دور کی ضرورت بن گیا ۔اس سے پاکستان کی قومی عادات ہی ایڈہاک ازم ،ڈنگ ٹپائو اور وقت گزاری کے گرد گھومنے لگیں ۔طویل المیعاد منصوبہ بندی ،دور اندیشانہ فیصلے تو جیسے خواب وخیال ہو کر رہ گئے۔ہر حکمران نے بس اپنے اقتدار کے دن اچھے طریقے سے گزارنے کو ہی کل کائنات جان لیا اور آنے والی نسلوں اور آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچنا قصہ ٔ پارینہ بن گیا ۔نظریۂ ضرورت کا جن بوتل سے کیا نکلا پاکستان مستقل آئین اور مستحکم نظام حکومت کو ترستا چلا گیا ۔کبھی وفاقی طرز حکومت تو کبھی ون یونٹ نظام کبھی صدارتی تو کبھی پارلیمانی نظام دونوں سے جی اُچاٹ ہوگیا تو سب کو گھر رخصت کردیا اور مارشل لا کی صورت میں شخصی حکمرانی گویا کہ جس حکمران کی ضرورت جو نظام تھا لمحہ ٔ موجود میں ناگزیر قرار پایا ۔ وقت کا دھارا بدل گیا تو اس دور کا یہ ناگزیر نظام بھی جانے والے ناگزیر شخص کے ساتھ تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوگیا ۔کبھی فوجی حکومت تو کبھی نیم فوجی یا سویلین حکومت ایک کے بعد دوسرا آئین بس پاکستان ایک تماشا گاہ اور تجربہ گاہ بن کر رہ گیا ۔اسی موقع اور موڑ کے لئے کہا جاتا ہے کہ ”لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ”جسٹس منیر کے ایک لمحے کی خطا ،قوت ِ فیصلہ کے اظہار میں ہچکچاہٹ ،دلیری اور دوراندیشی سے گریز نے قوم کو دائرے کا مسافر بنا ڈالا ۔اس کے بعد سے قوم کا سفر ایک دائرے میں ہو رہا ہے اور دائرے میں سفر کرکے بھلا کبھی منزل ملی ہے۔ہر آٹھ دس سال بعد ایک نیا سسٹم نیا چہرہ قوم کا مقدر بن کر رہ گیا جو حکمران آیا اپنے ساتھ اپنا سسٹم بھی لایا اور اس دعوے کے ساتھ لایا کہ یہی نسخہ اس مریض لادوا کے تمام امراض کا شافی علاج ہے ۔آٹھ دس برس وہ نیم حکیم قوم وملک پر اس نسخے کو آزمانے کے تجربات کرتا رہا جب وقت کی بادِمخالف چلی اور حکمران اپنا پاندان اُٹھائے کوچہ ٔ اقتدار سے بے نیل ومرام نکل پڑا تو انداز ہ ہوا کہ مریض توپہلے سے زیادہ بدحال اور لاغر ہوچکا ہے ۔اس کا مرض زیادہ بڑھ گیا ہے اور پھر کوئی نیا حکیم نئے نسخے نئے دعوے اور نئی چہروں کے ساتھ اگلے چند برس کے لئے اس کام میں جُت جاتا ہے مگر نتیجہ وہی نکلتا ہے یعنی ڈھاک کے تین پات۔یہاں تک کہ اس ملک پر تجربات کرتے کرتے پچہتر برس بیت گئے اور کئی نسلیں گزر گئیں مگر پاکستان کو استحکام نہ مل سکا اور پچہتر برس بعد بھی نظریہ ٔ ضرورت کا جن بوتل میں واپس جانے کو تیار نہیں ۔زمانہ بدل گیا وقت کا تقاضابدل گیا نسلوں کا مزاج اور شعور بدل گیا ان کی سوچ کا زاویہ اور انداز بدل گیا مگر ”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد” کے مصداق اگر کوئی نہ بدلا تو وہ اس ملک اور ریاست کا حکمران طبقہ اور فیصلہ ساز اشرافیہ تھا جو اب بھی ماضی میں زندہ رہنے پر مصر ہے ۔جو اپنے عوام میں بیداری اور نئے طور طریقوں پر اصرار کی خواہش کا احترام کرنے اور اسے سمجھنے کی بجائے پرانی روشوں پر چلنے پر مُصر ہیں ۔عوام کے ساتھ ضد باندھنا اچھا نہیںہوتا ۔بلی کو چاروں طرف سے گھیر ا جائے تو جان بچانے کی خاطر وہ بھی منہ پر جھپٹ پڑتی ہے انسان تو کس قدر مردہ ضمیر ہوں مگر اشرف المخلوقات تو ضرور ہیں اور کسی بھی لمحے ان کی خوئے بغاوت جاگ پڑتی ہے ۔جس طاقت کو آپ حرزِ جاں بنائے رکھتے ہیں آخر کار چار وناچار اسے چھوڑنا پڑتا ہے۔ایک طرف معاشرے کا مزاج اور موڈ ہوتا ہے تو دوسری طرف طاقت کو بند مٹھی میں دبائے رکھنے کی کوشش سے ریاستیں عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہیں۔آج کا پاکستانی معاشرہ اور نوجوان اقبال کے اس ترانے پر مست ورقصاں ہے ۔
اے غنچہ ٔ خوابیدہ تو نرگس نگران خیز
از خوابِ گراں خواب ِگراں خواب ِ گراں خیز
اے سوئے ہوئے پھول نرگس کے پھول کی طرح جاگ
گہری نیند سے گہری نیند سے گہری نیند سے جاگ۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟