مشرقیات

لڑکے نے درخواست کی حضرت! ایک کرم کیجئے۔۔۔ پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا کہ آج میرے گھر دعوت ہے بہت لوگ آرہے ہیں جی چاہتا ہے آپ جیسے بزرگ بھی اس موقع پر تشریف لائیں، فرمایا ٹھیک ہے میں آجائوں گا لڑکا خوش خوش اپنے گھر لوٹ گیا۔حضرت جنید بغدادی وعدے کے مطابق دعوت کے وقت اس لڑکے کے گھر پہنچے دروازے پر لڑکے کا باپ کھڑا تھا اس نے حضرت جنید کو دیکھا تو دل میں سوچا یہ کہاں گھس آیا؟ میں نے تو اس شخص کو بلایا نہ تھا، دعوت بڑے لوگوں کی ہے، یہ فقیر خرقہ پوش اپنا تکیہ چھوڑ کر یہاں کہاں چلا آیا؟ اسے ڈانٹ کر بھگا دینا چاہئے، چنانچہ حضرت جنید قریب آئے تو اس نے انہیں ڈپٹ کر چلتا کر دیا، حضرت جنید خاموشی سے واپس چلے گئے اور کر بھی کیا سکتے تھے؟۔
گھر آئے مہمان کی بے عزتی بری بات ہے، بہت بری بات! اس سے نہ صرف بداخلاقی ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ رزق میں بھی کمی آتی ہے۔ ارشاد نبویۖ ہے جسے اللہ پر اور قیامت پر یقین ہو اسے چاہئے کہ مہمان کی عزت کرے۔ محدثین اور مورخین لکھتے ہیں کہ آنحضرتۖ مہمانوں کی خاطر اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے، تین دن رات مہمان رکھنا مسلمانوں کا ایک دوسرے پر حق ہے۔
حضرت جنید بہت بڑے آدمی تھے اللہ کو پہنچاننے والے، اللہ سے ڈرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرنے والے’ اللہ نے انہیں بڑی عقل دی تھی۔یہ لڑکا جس نے حضرت جنید کو دعوت دی تھی کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا وہ بھی گھر کا بااختیار فرد تھا، دعوت کے اہتمام میں ادھر ادھر دوڑتے بھا گتے کسی سے اس نے ذکر کیا، کہ اس نے حضرت جنید کو دعوت دی تھی، وہ ابھی تک نہیں آئے۔ جواب ملا تم نے انہیں بلایا تھا، لڑکے نے کہا ہاں! اس کا دوست بولا وہ آئے تھے تمہارے والد نے انہیں دروازے سے لوٹا دیا، لڑکے نے کہا، ارے یہ تو بہت برا ہوا، بھاگا بھاگا حضرت کے پاس پہنچا ۔بولا آپ چلیں میں آپ کو لینے آیا ہوں، حضرت جنید نے اپنی افتاد نہ سنائی صرف اتنا کہا کہ عزیزمن! تم چلو میں آیا ۔
لڑکا جانتا تھا وہ وعدے کے پکے ہیں، اس لئے خوش خوش چلا آیا تھوڑی دیر میںحضرت جنید نکلے اور لڑکے کے گھر کی طرت چلے، اتفاق کہ وہاں پہنچے تو لڑکا دکھائی نہ دیا بلکہ پھر باپ دروازے پر کھڑا ملا، اس نے حضرت جنید کو دوبارہ آتے دیکھا تو اسے بڑا غصہ آیا، سوچا یہ موقع ڈھونڈ ڈھونڈ کے آنکلتا ہے، پاس آتے ہی ڈانٹ کر پھر چلتا کر دیا، ابو شریح کی روایت ہی میں ہے کہ مہمان سے ہمیشہ اچھی بات کی جائے ورنہ بہتر ہے کہ چپ رہا جائے بد خلقی مناسب نہیں۔یہ اللہ کے بندے پھر لوٹ آئے، نہ ابروئوں میں گرہ، نہ ماتھے پر شکن، نہ دل میں غبار، نہ زبان پر حرف شکایت، ہنستے کھیلتے گئے ہنستے کھیلتے چلے آئے، اتنے میں لڑکا پھر حضرت کے انتظار میں آکھڑا ہوا پھر کسی نے اسے بتایا کہ یہ کچھ حضرت جنید پر گزری، وہ پھر دوڑا دوڑا حضرت کے پاس گیا ڈرتے ڈرتے پھر آپ کو دعوت دی، آپ نے پھر ہاں کر دی۔فرمایا۔ تم چلو میں آیا چنانچہ پھر پہنچے پھر نکالے گئے چار بار اسی طرح ہوا کسی نے پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے؟آپ کو غیرت نہیں آتی!
فرمایا۔۔۔ آتی کیوں نہیں، بہت آتی ہے لیکن لڑکا جب بلانے آتا ہے تو اس کی خوشی کے لئے چلا جاتا ہوں اور جب باپ نکال دیتا ہے تو اس کی خوشی کیلئے واپس آجاتا ہوں، میاں اللہ کے بندوں کو خوش کرنا بہت بڑی بات ہے اپنے نفس کو جب تک ماروگے نہیں یہ نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم