چشم کشا امر

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے کیس میں اپنا 25صفحات پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اس قسم کے اعتراضات سے عدالت پرعوام کے اعتماد پر اثر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے وقار کی بحالی اور عوام کے اعتماد کی ذمہ داری چیف جسٹس کی بنیادی ذمہ داری ہے، یہ دونوں کا کام نہیں ہو رہے۔ سپریم کورٹ کے جج نے تحریر کیا کہ سیاستدانوں کے پیدا کردہ دلدل سے ملک کو نکالنے کے لیے ایک بار پھر عدالت کو دعوت دی گئی۔تشویشناک بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت کے سیاسی طرز عمل سے ملک مزید عدم استحکام اور سیاسی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔سیاسی قیادت میں طاقت کی لڑائی عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کو مزید کمزور کررہی ہے۔ جب سیاست دان مناسب فورمز سے رجوع نہیں کرتے اور اپنے تنازعات کو عدالتوں میں لاتے ہیں تو سیاستدان تو جیت جاتے ہیں لیکن لامحالہ عدالت ہار جاتی ہے۔سپریم کورٹ کے ایک اور معزز جج نے انتخابات کے التواء کے حوالے سے جن قانونی امور کی بات کی ہے اس سے قطع نظر انہوں نے اس موقع پرملکی حالات سیاست اور عدلیہ کے کردار اور اس کے اثرات کے حوالے سے جن امور کو سامنے لایا ہے اس کی صداقت اور ملکی و عوامی سطح پر اس سے پیدا شدہ حالات اور ماحول سے متعلق جن ا مورکی نشاندہی کی ہے وہ عوامی سطح پر مسلمہ اور ہر خاص و عام اپنی دانست کے مطابق ان حالات سے مشوش ہے فاضل جج کے ریمارکس اس کا بہترین ادراک اور اس پریشان حالی اور الجھی ہوئی سوچ کی ڈور کی عکاسی و ترجمانی ہے جب تک جن عوامل کا عوامی سطح پر ادراک نظر آتا ہے اور ملک کا اہل دانش طبقہ اس سے سخت تشویش کا شکار ہے بد قسمتی سے ان حالات کو پیدا کرنے میں ہمارے اہل سیاست و اہل عدالت کا بڑا کردار ہے جواداروں کی بے توقیری سے لے کر ملک میں انتشار کا باعث ہے نیز ان حالات کا ملکی سیاست اور ان حالات سے ملک کی معیشت جس طرح متاثر ہورہی ہے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں صورتحال سب کے سامنے ہے جس سے نکلنے کے لئے قومی جذبے اور ملک کی خیر خواہی کا راستہ اختیار کرنا ہی موزں عمل ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے