انسداد دہشتگردی کے عزم کااعادہ

وزیر اعظم کے زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیاگیا۔ کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہرکوکالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جو کہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے، جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتمادسازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کر دیا گیا ۔ اجلاس نے پوری قوم اور حکومت کے ساتھ مل کرہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی جو ایک نئے جذبے اور نئی عزم و ہمت کے ساتھ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرے گا۔پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمے کے لئے اس مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی سکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پرکوششیں بھی شامل ہوں گی۔مختلف تطہیری کارروائیوں میں دہشت گردوں کی جس طرح کمر توڑ دی گئی تھی اور وہ جان بچا کر بھاگے یا پھر زیر زمین چلے جانے پر مجبور ہو گئے تھے اس کے ثمرات کو سمیٹنے کے دنوں میں جوغلطیاں دانستہ و نادانستہ طور پر کی گئیں اس سے ان عناصر کو پلٹ کر وار کرنے کا موقع فراہم کیا وگر نہ وہ اتنے متحرک نہیں رہ گئے تھے کہ دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت کر پاتے جس کے اثرات سامنے ہیں اب ایک مرتبہ پھر اس غلطی کو سدھارنے کے لئے ازسرنو تطہیری عمل کا نئے عزم سے فیصلے کا عندیہ ملتا ہے حالات بھی اس امر کے متقاضی ہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں اس طرح کے عناصر کے ساتھ اعتماد سازی کے نام پر جونرمی برتی گئی اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے سوات کے عوام ہوں یا وزیرستان کے ہر دو علاقوں کے عوام نے اس وقت جس شعور اور تحرک کا مظاہرہ کرکے غلطی کے مرتکب عناصر کوپیغام دیا تھا اگر اسی وقت ان کی سنی جاتی اور ہوش کے ناخن لئے جاتے تو بعدکی صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی بہرحال اب معاملہ جوہوا سو ہوا کے مصداق ہے ایک مرتبہ پھر ان عناصر کے صفایا کرنے کی ممکنہ کارروائیاں آسان کام نہیں اور اس کے لئے وسائل و افرادی قوت کی بھی ضرورت ہو گی بہرحال بہر صورت یہ عمل ناگزیر ہے جس میں تاخیر کی بھی گنجائش نہیں اس وقت ملک کے معاشی اور داخلی حالات ساز گار نہیں لیکن جس طرح آئے روز جگہ جگہ پولیس اہلکاروں اور عمارتوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے اس کا تقاضا ہے کہ ایک مرتبہ پھر ان عناصر کے خلاف سخت سے سخت اقدامات بلاتاخیر شروع ہو اور اسے پوری طرح انجام تک پہنچایا جائے۔نائن الیون کے بعد سے ملک کو دہشت گردی کی جس غفریت کا سامناہے اس کا جس پامردی سے مقابلہ کیا گیا وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں مشکل امر یہ ہے کہ غیر مرئی دشمن اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور آئے روز اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں اس بارے دورائے نہیں کہ پاک فوج اور ساتھ ساتھ پولیس دونوں اس صورتحال سے نمٹنے میں ہر بار مستعد پائے گئے چھپ کر وار اور اچانک کسی جگہ دہشت گردی کرنے کے واقعات کا تقاضا ہے کہ ایک مرتبہ پھر تطہیری مہم اس انداز سے شروع کی جائے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اور کوئی بھی کمیں گاہ باقی نہ رہے نیز جن لوگوں کی وساطت اور مدد سے یہ عناصر حملہ آور ہوتے ہیں ان مددگاروں کی بھی چھان بین ہو۔اب اس جنگ کولڑنے کے سوائی کوئی آپشن نہیں ہے بلکہ جنگ کوجیتنے کے علاوہ بھی کوئی اور چارہ کار موجود نہیں یقینا دیر یا بدیر ان دہشت گردوں کا صفایا ہونا ہے اور جیت پاکستانی عوام ہی کی ہونی ہے۔صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ پاک فوج کے ساتھ ساتھ ضم اضلاع میں بالخصوص ان عناصر سے نمٹنے کی ذمہ داری انجام دینے والے محکموں اور اہلکاروں کی استعداد و طاقت میں اضافہ اور ان کومزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے حکومتی سطح پرجن اقدامات اور سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے تاہم تما م تر دعوئوں کے باوجود اس میں کمی اور تشنگی پوری طرح محسوس ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کے پاس جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی موجودگی سب سے بڑا چیلنج ہے۔نائن الیون کے بعد کے واقعات میں قومی سطح پر اتحاد و اتفاق کی جو مثالی صورتحال تھی بدقسمتی سے ان دنوں وہ نظر نہیں آتی سیاسی معاملات کے باعث قوم منقسم اور باہم دست و گربیاں ہے اس سے بھی بڑی بدقسمتی ان اداروں پر انگشت نمائی ہے جو ڈھال بن کر ہمیں تحفظ دے رہے ہیں۔دہشت گردی کا مسئلہ اور اس کا مستقل و دیرپا حل ہشت پہلو ہے اور اس کیلئے مزید تیاری اور جدوجہد کی ضرورت ہے اس کی کئی جہتیں ہیں جو اس امرکا متقاضی ہے کہ ہم سب مل کر اپنا کردار ادا کریں۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟