بارودی مواد اور اس کی باقیات

جب سے دنیا بنی اور یہاں انسانوں کی آبادکاری شروع ہوئی، تب سے اختلاف، مخالفت اور تنازعات نے جنم لئے جو آگے بڑھ کر جنگ وجدل کی صورت اختیارکرتے گئے اور مخالف فریق کو زخمی کرنے یا مارنے کیلئے ہتھیار بھی وجود میں آنے لگے، یہ سلسلہ ازل سے شروع ہے اور ابد تک جاری رہے گا، اس سلسلے میں نقصانات کی نوعیت، ہتھیاروں کی اقسام اور جسامت پر منحصر ہوتا ہے لیکن جو چیز قدر ِمشترک ہے، وہ بارودی مواد کو پہچاننے، ان کے نقصانات کو کم سے کم کرنے اورخطرناک رویوں کو چھوڑ کر محفوظ رویوں کو اپنانے کے ہیں، خطرناک بارودی مواد (خصوصاً بارودی سرنگوں) سے بچائو کے حوالے سے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہر سال ماہ اپریل کی چار تاریخ کو ایک عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد شعور و آگاہی کے علاوہ ممبر ممالک کو اس مسئلے پر پالیسی ترتیب دینے کے حوالے سے آمادہ کرنا ہے، ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی کافی عرصہ سے شورش اور خلفشار کا شکار رہا جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں عوام کو مختلف خطرناک بارودی مواد کا سامنا ہوسکتا ہے، خطرناک بارودی مواد کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک وہ جو ایک مسلح پارٹی چھوڑ کر فرار ہو جاتی ہے، مثلا ًگولہ بارود کے ڈپو،گودام و دیگرذخائر۔ ان کو متروکہ دھماکہ خیزموادکہا جاتا ہے، دوسری قسم ان بارودی مواد کی ہے جو فائرہونے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے پھٹتے نہیں ہیں، ان کو ان پھٹا دھماکہ خیز مواد کہا جاتا ہے، یہ انتہائی خطرناک بارودی مواد کافی عرصے تک مختلف جگہوں پر پڑے رہنے سے انتہائی حساس بنتے جاتے ہیں، زنگ آلود ہونے کے سبب حساس ہونے کے ساتھ ساتھ جھاڑیوں میں چھپے رہ کر نظر کو بھی دھوکہ دے جاتے ہیں۔ ان کو چھونے سے یا کوئی چیز ان پر پھینکنے سے جان لیوا دھماکہ ہوسکتا ہے، یہ عموما ان مقامات پر موجود ہوسکتے ہیں جہاں شورش جاری ہے یا ختم ہوئی ہے، فخر و سجاوٹ کے طور پر گھروں میں بھی پائے جاتے ہیں، یہ بارش یا سیلابی ریلے کے ساتھ بالائی علاقوں سے زیرین علاقوں میں آجاتے ہیں اور دریائوں کے آس پاس پائے جاتے ہیں، ان پھٹا دھماکہ خیز مواد بظاہر محفوظ لگتا ہے لیکن یہ انتہائی ناقابل اعتبار ہوتے ہیں، کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں، ان کا دھماکہ انہیں دانستہ یا غیردانستہ چھیڑنے سے ہوتا ہے، جیسے کہ لوگ، لاعلمی کی وجہ سے، کباڑ کی صورت میں ان کی خریدو فروخت کرتے ہیں جو کسی بھی وقت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، یہ بارودی مواد مختلف انواع و اقسام میں مل جاتے ہیں، مثلاً مارٹر گولے،گرنیڈ، توپ کے گولے،راکٹ اور مختلف اقسام کے میزائل وغیرہ۔ بارودی مواد کی ایک اور جان لیوا قسم بارودی سرنگیں ہیں، جو زمین کے اندر یا باہر اس طرح لگائی جاتی ہیں کہ ان پر دبائو آنے سے، چھونے سے یا آس پاس کسی چیز کے گزر نے سے دھماکہ ہو جاتا ہے، بنیادی طور پر ان کی دو اقسام ہیں، جان لیوا بارودی سرنگ اور ٹینک شکن بارودی سرنگ۔ بارودی سرنگ کا مقصد دشمن کو مار نے سے زیادہ زخمی کرنا ہوتا ہے تاکہ اس زخمی کو میدان جنگ سے اٹھانے، لے جانے میں وقت اور سرمائے کا ضیاع ہو اور ساتھ ساتھ دیگر جنگجوئوں پر زخمی کی حالت زار کا براہ راست نفسیاتی دبائوآجائے، دھماکے کی نوعیت اورساخت کے اعتبار سے ماہرین جان لیوا بارودی سرنگوں کو مزید چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں، دبائو سے پھٹنے والی بارودی سرنگ، اچھل کر پھٹنے والی بارودی سرنگ، ہر طرف ذرات چھوڑنے والی اور ایک خاص سمت میں چھرے چھوڑنے والی بارودی سرنگ، ٹینک شکن بارودی سرنگ، گاڑیوں اور ٹینکوں وغیرہ کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں، یہ بھی جان لیوابارودی سرنگ کی طرح پھٹتی ہیں، ان کا سائزقدرے بڑا ہوتا ہے اور دھماکہ بھی زوردار ہوتاہے، بارودی سرنگ چار طریقوں سے پھٹتی ہے، وزن یا دبائو ڈالنے سے، ان کے ساتھ جڑے ہوئے تار کو چھیڑنے سے، ان کے قریب لگی کسی چیز
کو اکھاڑ نے سے اور چھونے سے۔ بارودی مواد کی اگلی قسم دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد کی ہے، یہ مقامی طور پر مختلف بارودی مواد کو جوڑ کر، توڑ مروڑ کر اور ردوبدل کر کے بنائے جاتے ہیں، پریشرککرسے لے کر مارٹر گولے تک اس مقصد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں، یہ ٹائم آلے سے ، ریموٹ کنٹرول سے، تار کو چھیڑنے سے، یا کسی فرد کے چھونے سے پھٹ جاتے ہیں اور انتہائی بڑے دھماکے کر جاتے ہیں، خودکش دھماکے بھی اس گروہ میں شامل ہیں، عموماً یہ ایک ہدف کو نشانہ بنا نے کے لئے استعمال کئے جا تے ہیں لیکن ایک ہدف کے پیچھے کئی دوسرے بے قصور لوگ بھی نشانہ بن جاتے ہیں، اس سیریز میں کھلونے نما دھماکہ خیز آلہ بھی دیسی ساختہ دھماکہ خیز موادکی ایک قسم ہے جو روزمرہ استعمال کی اشیاء کو بارودی مواد کے ساتھ جوڑ کر دھوکہ دہی سے دھماکہ کیا جاتا ہے، یہ آلے کھولنے یا چھیڑنے پردھماکے کر جاتے ہیں، مثلاً دروازہ کھولنے سے، ٹیلی ویژن آن کرنے سے، کسی مشروب کا ڈھکن کھولنے سے، ان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ طریقہ وردات بعض اوقات بچوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتاہے، کوئی خوش شکل چیز، جو بچوں کی دلچسپی کی ہو، بارود سے بھرکر بچوں کو پھنسوا دیا جاتا ہے، لاعلم، متجسس بچے ان کو کھولنے کی کوشش میں اپنی جان یا کوئی عضوکھو بیٹھتے ہیں، اس حوالے سے خطرناک جگہوں کی نشاندہی اور ان کی پہچان بھی بہت ضروری ہے، یہ وہ مقامات ہیں جہاں شورش جاری ہے یا گزر چکی ہے، مختلف ہتھیاروں کے استعمال سے یہ علاقے بارودی آلودگی سے متاثر ہو جاتے ہیں، ان علاقوں میں سرگرمیاں کرتے ہوئے محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے، ایسے خطرناک علاقے یہ ہیں، جہاں ابھی شورش جاری ہے یا تھم چکی ہے، فوجی مورچے اورخندقیں، سرحدوں کے آس پاس کے علاقے، تباہ شدہ عمارتیں، تباہ شدہ گاڑیاں، تباہ شدہ پل، تباہ شدہ بجلی گھر، دریائوں کے اطراف والی جگہیں، کم استعمال شدہ پک ڈنڈیاں، متاثرہ چیک پوسٹ وغیرہ۔ خطرناک جگہوں کی کچھ ظاہری نشانیاں بھی ہوتی ہیں مثلاً آس پاس موجود فصلوں میں غیر فطری ردوبدل، گولہ بارود کے خول اور ڈبے، جانوروں کے ڈھانچے، فوجی مشقوں کے نشانات، مورچے، خندقیں، زمین پر گولہ بارود کے نشانات۔ اگر کسی کو بارودی آلودہ علاقوں میں اس قسم کے نشانات نظرآئیں تو ممکنہ خطرات کو مد نظررکھ کرمحتاط رویہ اپنانا چاہئے، بعض دفعہ ان علاقوں میں خطرات کے سرکاری یا دیسی ساختہ نشانات لگائے جاتے ہیں، اگرآپ کسی ایسی جگہ پر ہیں جس کے بارے میں آپ زیادہ نہیں جانتے، تو آپ وہاں پر خطرے کے نشانات دیکھنے کی کوشش کریں۔ سرکاری نشانات یہ ہیں، سرخ تکونی نشان لفظ خطرہ کے ساتھ، کوئی بورڈ، خطرناک جگہ کے اردگرد کوئی پٹی، خاردار تار، کوئی تاکیدی تحریر، ہڈی اور کھوپڑی والا نشان، فوجی یا پولیس والے نشانات وغیرہ۔ خلفشار والے علاقوں میں اگر کہیں یہ نشانات نظرآئیں تو فوراً محتاط ہوجانے کی ضرورت ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نشانات نا ہونے کی صورت میں بھی اس علاقے کو مکمل طور پر محفوظ نا سمجھا جائے بلکہ حفاظتی اقدامات ملحوظ خاطررہیں، بعض دفعہ یہ بھی ہوتاہے کہ ایسے علاقوں میں کوئی سرکاری نشانات نہیں لگائی جاتے بلکہ مقامی لوگ دیسی نشانات لگا دیتے ہیں جیسے پتھروں کا ڈھیر، سرخ چھڑی، ہاتھوں سے لکھی ہوئی کوئی تحریر، جھاڑیوں سے بنائے ہوئے نشانات، پلاسٹک بوتل وغیرہ، بارودی دھماکے انسانوں، جانوروں اورنباتات سب کیلئے ہمیشہ سے تباہی کاسبب بنتے ہیں۔ بارودی سرنگیں یا دھماکہ خیز باقیات اپنے حجم اور مواد کے حساب سے تباہی لاتے ہیں جو موت، جزوی معذوری یا مکمل معذوری کا سبب بن کر ایک انسان اور اس کی پورے خاندان کو اذیت میں مبتلا کر دیتی ہیں، دھماکوں کی صورت میں متاثرہ شخص اور ان کے خاندان والوں پر کچھ اس قسم کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، دھماکے سے انسان مر جاتا ہے یا زندگی بھر کسی معذوری کا شکار ہو جاتا ہے، معذوری کی زندگی مجبوری کی زندگی ہوتی ہے، معذور انسان پرزندگی بوجھ لگنے لگتی ہے، معذور انسان کام کاج کے قابل نہیں رہتا، اس وجہ سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ بارودی مواد سے متاثر ہونے والوں میں اکثریت گھر کی روزی روٹی کمانے والے مردوں کی ہے، ان کی معذوری کے ساتھ پورا خاندان معاشی طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتاہے، معذور انسان صرف گھر کا ہو کر رہ جاتاہے، وہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا اور تنہائی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ معاشرہ ان کو اکثراوقات نظرانداز کردیتا ہے اور یوں ان کی زندگی ایک قید کی صورت اختیار کر جاتی ہے، جسمانی معذوری، معاشی تنگ دستی اور سماجی کاموں سے دوری معذور انسان کو نفسیاتی طور پر بیمار بنا دیتی ہیںم، ان کیلئے زندگی کی کشش ختم ہو جاتی ہے، یہ لوگ مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو کر خود کو بھی اور خاندان والوں کو بھی شدید اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں، بارود کی آلودگی سے ترقیاتی کام بھی رک جاتے ہیں، کیونکہ رسل و رسائل کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، ذرائع مواصلات کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، بچوں کی سکول تک رسائی، مریضوں کی ہسپتال تک رسائی محدود یا مکمل طور پر بلاک ہوجاتی ہیں۔ بارودی مواد کا اثر آب و ہوا پر بھی پڑتا ہے۔ پانی کے ذخائر آلودہ ہوجاتے ہیں، زراعت سے وابستہ کھیت کھلیاں گولہ بارود کی وجہ سے ناقابل استعمال ہونے سے مقامی لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور مل ملاکے خاندانی، علاقائی اور ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ ہم اپنے پیارے دیس پاکستان کے خلفشار والے علاقوں میں دیکھ چکے ہیں، ان تمام مصائب سے بچنے کا واحد حل ،آگاہی، شعور اور محفوظ رویوں کو فروغ دینے اور اپنانے میں پوشیدہ ہے۔ آگاہی مہم کے ذریعے سے عوام کو شعور دلاکر متعقلہ سرکاری اداروں کیساتھ روابط استوارکرکے غیر محفوظ عادتوں کی حوصلہ شکنی اور محفوظ عادتوں کی تشہیر کرکے بارودی مواد کے خطرات سے جان و مال و دیگر نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ علاقے میں موجود دھماکہ خیز مواد کو تلف کرکے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری کو ممکن بنایا جا سکتا ہے، متاثرین کو نفسیاتی، جسمانی اور معاشی طور پر بحال کرکے ان کی پریشانیوں کا مداوا کیا جاسکتا ہے، ترقی کا راستہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدانوں کو بارودی مواد سے پاک کرکے بچوں اور نوجوانوں کیلئے مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک