بابائے قوم کی ”کردارکشی” اور بونے دانشور

آسمان پر تھوکنا ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم بے وقوفی کرنا ہے ان دنوں ایک بونے نے بھی ایسی ہی حرکت کرڈالی ہے، سوشل میڈیا پر اس شخص کا یہ دعویٰ وائرل ہو رہا ہے کہ بابائے قوم حضرت قائداعظم سے بڑا لیڈر ان کا ممدوح ہے، اپنے اس ممدوح کے حوالے سے موصوف ایک عرصے سے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر بڑے بڑے دعوے کرتا رہا ہے کبھی اسے (نعوذباللہ) خدا کا اوتار قرار دیتا ہے کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور اب اس نے اپنے ممدوح کے مقابلے میں بانی پاکستان کی کردار کشی کرتے ہوئے بابائے قوم کی حیثیت گھٹانے کی ناپاک جسارت کر ڈالی ہے، اوپر جس محاورے کا ذکر آیا ہے اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی لکھا جاتا ہے کہ چاند پر تھوکا منہ پر آتا ہے، ظاہر ہے کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو چاند کی طرف منہ اٹھاکر تھوکنے کی غلطی کرے گا کیونکہ اس طرح اس کی اپنی ہی تھوک خود اس کے منہ پر آگرے گی اور وہ اپنا منہ صاف کرنے پر مجبور ہوگا لیکن یہاں صورتحال اس سے بھی آگے کی ہے کہ جو تھوک اس ”عقلمند” نے ایک ایسی شخصیت کی طرف اچھالنے کی کوشش کی ہے وہ اس عظمت کے پیکر تک تو خیر کیا پہنچتی الٹا نہ صرف اس کے منہ پر آگری ہے بلکہ اس کے ممدوح کے چہرے کو بھی گندہ کر کے نشان عبرت بنا رہی ہے، اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھائیں مجھے قیام کوئٹہ کے دوران یوم قائداعظم کی مناسبت سے 22 دستبر 1981ء میں کہی ہوئی ایک نظم یاد آگئی ہے پہلے وہ ملاحظہ فرمائیں نظم کا عنوان تھا ”قائداعظم”
بہت دنوں کی بات ہے
مجھے تو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں
کہ ہم تو غرق نکبتوں میں تھے ذلیل و خوارتھے
وطن میں اپنے تھے یہ ظلم و جور کا شکار تھے
ہر ایک سمت تیرگی ہر اک طرف غبار تھا
ہماری حسرتوں کی تھی نہ حد، نہ کچھ شمار تھا
پھر ایک شخص خواب سے جگانے ہم کو آگیا
وہ راستے کی تیرگی کو اپنے خون سے سینچ کر
وطن کے ذرے ذرے کو سنوارتا چلا گیا
وہ ہم کو زندگی کی شاہراہ پر لگا گیا
وہ ہم کواپنی منزلوں کا راستہ بتاگیا
وہ راستے حسین تھے، وہ منزلیں قریب تھیں
مگر نہ جانے کیا ہوا
بہت دنوں کی بات ہے
مجھے تو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں
فضا گھٹن سے اٹ گئی
وہ روشنی سمٹ گئی
کہ ہم تو روشنی کے ذرے ذرے کو ترس گئے
جو اپنے بھی عدوہوئے
تو خواب چار سو ہوئے
اور اب عجیب حال ہے
نہ خواب ہے، نہ جاگتے ہیں کچھ عجب حال ہے
رواں دواں ہیں اب بھی ہم
مگر نہ اب وہ راہ ہے
نہ گرد راہ کا پتا
وہ راستے سراب ہیں
وہ منزلیں بھی خواب ہیں
چلے تھے کل جہاں سے آج تک کھڑے ہیں ہم وہاں
کوئی نہیں جو ہم کو اپنے راستوں کی دے خبر
کوئی نہیں جو ہم کو اپنی منزلوں کا دے پتا
کوئی نہیں جو اپنی تیرگی کو پھر اجال دے
کوئی نہیں جوروشنی کے پر فضا پہ ڈال دے
وہ قائداعظم تھا
وہ قائداعظم تھا۔
بابائے قوم کے ساتھ ہم نے جو حشر کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے انہوں نے جو سق ہمیں دیا یعنی ایمان، اتحاد، تنظیم اس کا تیاپانچہ کرکے ہم نے رکھ دیا، بابائے قوم کے بعد ان کے قد کاٹھ کا کوئی دوسرا رہنماء تو ہمیں کیا ملتا روز بروز بونوں کی ایک قطار ملک کے سیاہ و سفید پر قابض ہوتی رہی اور جس سلطنت کی بنیاد جمہوری اصولوں پر مبنی جدوجہد سے بابائے قوم نے رکھی ہم نے نہ صرف ان اصولوں کو پامال کیا بلکہ رفتہ رفتہ ان راستوں کو بھی کھو دیا جن پر اگر مسلسل خلوص نیت سے چلتے تو آج ہمارا یہ حال ہرگز نہ ہوتا، ہمارے لئے آزاد وطن حاصل کرنے والی عظیم شخصیت کا شکریہ ادا کرنا تو ایک طرف اب تک الٹا ہمارے نام نہاد دانشور الٹا ہاتھ بابائے قوم کے ”گریبان” پر ڈالنے کی جسارت کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو قائداعظم کے مقابل لاکر بانی پاکستان کی توہین کررہے ہیں مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ سرکاری سطح پراس ”جسارت” پر کوئی ردعمل دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے، حالانکہ بابائے قوم نے ملک کے وسائل لوٹ کر اپنے بینک اکائونٹ بھرنے کی بجائے خود اپنی دولت پاکستان کے عوام کیلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام پر خرچ کرنے کیلئے وصیت فرمائی، اس سلسلے میں پشاور یونیورسٹی میں بھی کچھ تعلیمی ادارے ان کی جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدن سے تعلیم کی روشنی پھیلانے میں اہم کردارادا کر رہے ہیں جبکہ جسے قائداعظم سے ”بڑا لیڈر” قرار دیا جا رہا ہے اس کی مبینہ لوٹ مار کے قصے زبان زد عام ہیں اور جہاں تک پاکستان کے خیرخواہ رہنمائوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ”قلت” تو نہیں تاہم پھر بھی بقول فراز۔
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز
رات تو رات ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟