اپنی اپنی ڈفلی

ملک میں جاری آئینی بحران نے مزید شدت اختیار کرلی ہے اور ایک جانب صدر مملکت کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منظور ہونے والے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کو پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے اس کو نظرثانی کیلئے واپس بھیج دیا ہے جبکہ دوسری جانب ججز کے مابین اختلافات نے بھی سپریم کورٹ کے اندر اختلافات کی خلیج کو واضح کردیا ہے، اس صورتحال پر نہ صرف سیاسی قیادت بلکہ بار کونسلز میں بھی تقسیم کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، جہاں تک صدر مملکت کی جانب سے پارلیمنٹ میں منظور کئے جانے والے بل پر اعتراضات کا تعلق ہے اس ضمن میں ان کے اعتراضات پر بھی ماہرین اعتراضات اٹھا رہے ہیں اور اگرچہ صدر کی جانب سے بل کو نظرثانی کیلئے بھیجنا کوئی غیرآئینی اقدام نہیں ہے تاہم ان کی جانب سے اسے پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر قرار دینا درست قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اگر پارلیمنٹ جو سپریم ادارہ ہے اور تمام ترقوانین اسی کے اندر سے جنم لے کر ملکی معاملات کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر وہی پارلیمنٹ کسی قانون یا ایکٹ میں ترمیم کرے ملکی معاملات کو درست سمت دینے کا مکلف نہیں ہوسکتی، یا اختیار نہیں رکھتی تو پھر وہ کونسا ادارہ ہے جو پارلیمنٹ سے بھی زیادہ اختیار رکھتا ہے، انتہائی معذرت کے ساتھ گزارش کرنے دیجئے کیا صدر مملکت ایسے سوال اٹھاکر سپریم کورٹ کو لفظ سپریم کی وجہ سے تمام اداروں یہاں تک کہ پارلیمنٹ پر بھی فوقیت دینے کی سوچ رکھتے ہیں؟ خود وہ اپنے اس کردار پر غور فرمائیں جب تحریک انصاف حکومت کے دوران ملک کو انہوں نے ”آرڈیننس فیکٹری” بنانے میں ہر طرح کا تعاون عمران حکومت کو فراہم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو بے توقیر کر دیا تھا اور ملک کو پارلیمان کے اندر قانون سازی کے بجائے آرڈیننسوں کے ذریعے چلایا جاتا رہا، اب محولہ بل کے حوالے سے تو خبریں آرہی ہیں کہ اسے دوبارہ پالیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس کروا کر صدر مملکت کے پاس بھیج دیا جائیگا جس کے بعد خواہ صدر مملکت حسب عادت مملکت کے غیر جانبدارصدر بن کر نہیں (جو ان کے منصب کا آئینی تقاضا ہے) بلکہ تحریک انصاف کے ایک رکن کی حیثیت اس پر دستخط نہ بھی کریں تب بھی مقررہ آئینی مدت کے بعد یہ بل بہر صورت نافذ ہو ہی جائے گا تاہم ان دس بارہ دنوںکے اندر ملک میں سیاسی اور آئینی بحران کس سطح کو چھو سکتا ہے اس بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔ ادھر سپریم کروٹ کے تین رکنی بنچ نے جو گل کھلائے ہیں ان پر سیاسی اور آئینی حلقوں میں اپنی اپنی سوچ ابھر رہی ہے یہاں تک بار کونسلز میں بھی اختلافات سامنے آئے ہیں، سپریم کورٹ کا چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ کی منظور شدہ قرارداد کے حوالے سے ہے اور اس قرارداد کو آئینی، عدلیہ کی آزادی کے منافی اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے اسے آئین کے آرٹیکل 68 کی کھلم کھلاخلاف ورزی قرار دیا ہے اور سپریم کورٹ بار کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق صدر عابد زبیری اور سیکرٹری جنرل مقتدر شبیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قانون کی حکمران اور آئینی بالادستی کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا بارکونسل نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے آمرانہ انداز پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، بار کونسل نے قرار داد میں کہا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کے عدالتی حکم سے واضح ہوگیا ہے کہ کیس 4 اور 3 کی اکثریت سے فیصلہ ہوا تھا مگر چیف جسٹس نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر غلط بیانی سے کام لیا اور عدالتی نظام کو داغدار کیا، جوڈیشل ضابطہ اخلاق اور اپنے حلف کی بھی خلاف ورازی کی، بار کونسل کے چیئرمین زربادشاہ خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ خیبر بارکونسل نے جسٹس مظاہرعلی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے اور اس کے باوجود انہیں اپنی مرضی کے بینچز میں بٹھایا جاتا ہے اور بینچوں کی تشکیل میں بھی سینئر ججز کو نظرانداز کیا جاتا ہے جو جوڈیشل ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کے خلاف ریفرنس داخل کیا جائے تاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان پرعوام کا اعتماد برقراررہے، ہم آزاد اور خود مختار عدلیہ کے حق میں ہیں نہ کہ سیاسی سپریم کورٹ کے، درایں حالات اگر سپریم کورٹ بار کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں منظور شدہ قرارداد کو درست بھی قرار دیا جائے تو اس صورت میں جسٹس اطہرمن اللہ کے جاری کردہ فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کو کس مقام پر رکھا جاسکتا ہے اور اگر ایسے فیصلوں کے بعد ملک کا سب سے بڑا آئین ساز ادارہ یعنی پارلیمنٹ کوئی قرارداد منظور کرکے سپریم کورٹ کے مخصوص بنچ کے کسی فیصلے پر سوال اٹھاتا ہے تو صرف اس کو ہی آئین کے منافی قرار دیا جائے گا یا پھر تین رکنی بنچ کے انتہائی متنازعہ فیصلے پر بھی کوئی رائے سپریم کورٹ بار کی جانب سے آئے گی، بہرحال حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں جاری اس آئینی، قانونی اور سیاسی بحران کا حل ڈھونڈنے کی سعی کرنے کیلئے جملہ سیاسی، قانونی اور آئینی ماہرین کو سرجوڑ کر بیٹھ جانا چاہئے کیونکہ ملک کی جو حالت ہے اور صورتحال روزبروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے اس سے چھٹکارا پانے کیلئے اتحاد و اتفاق سے اقدام کرتے ہوئے اس بحران سے نمٹا جائے۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک