علاقائی منظر نامہ

علاقائی سیاست ایک اہم عنصر ہے جو کہ مختلف ملکوں کی سیاسی، اقتصادی، اور فرہنگی تعلقات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے تحت، مختلف ممالک کے درمیان تجارت، سیاسی تبادلہ خیال، اور اقتصادی تعاون کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔علاقائی سیاست کی اہمیت کی ایک مثال ایشیا ہے، جہاں سے چین، جاپان، کوریا، اور دیگر ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہیں، اور ان کے درمیان سیاسی تعاون بھی ہوتا ہے۔ ان علاقوں کے مشترکہ مسائل کے حل کے لئے ایشیائی تعاون تنظیم کی تشکیل بھی کی گئی جو کہ مختلف ممالک کے درمیان تعاون کی بنیادیں رکھتی ہے۔اسی طرح، یورپی یونین کی تشکیل اور افریقی اتحاد کے ترقی کے لئے بھی علاقائی سیاست بہت اہم ثابت ہوئی ہے۔ علاقائی سیاست کے تحت، مختلف ریاستیں باہمی تجارت، اقتصادی تعاون، اور سیاسی تعاون کے لئے اہم قراردادوں پر اتفاق کرتی ہیں، جس سے ان کے درمیان تنظر کے بڑھنے میں مدد ملتی ہے ۔سیاسی مفکرین نے ہمیشہ علاقائی سیاست کی اہمیت پر زور دیا ہے ، ان میں سے چند مفکرین تو ” ریجنل ازم ” کے بہت بڑے حامی تھے جبکہ باقی تمام بھی بہرحال اس کی اہمیت کو تسلیم تو کرتے تھے ۔ مشہور مفکر جان ڈیوی نے کہا تھا کہ ” مقامی ہونا ہی واحد آفاقیت ہے، جس پر ہر فن کی تعمیر ممکن ہے۔” اگر ہم جان ڈیوی کے اس قول کی تعبیر دیکھنا چاہیں تو ” چائنا ” کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح علاقائی سطح پر اپنی اہمیت کو تسلیم کرواتے کرواتے ہمسایہ علاقوں اور پھر بہرحال عالمی دنیا میں بھی سپر پاور کو ٹکر دینے کے لئے آکھڑا ہوا۔ یہ کسی بھی میں شعبے میں ہو خواہ فن ہویا سیا ست، انسان ہو یا ریاست ، اس کو عروج اور زوال دونوں ہی علاقائی طور پر ملنا شروع ہوتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ اس کو عالمگیریت تک پہنچا دیتا ہے ۔ لیکن ، بہرحال اس کی ابتدا تو ہمیشہ اس کے علاقے سے ہی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی بھارتی ترقی کے منازل کا اندازہ اس کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں سابقہ سپر پاور روس اپنی نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل دیتے ہوئے ابھرتے ہوئے سپر پاور چائنا کے ساتھ ساتھ "بھارت” کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو بھی اپنی پالیسی کا محور بنا رہا ہے ۔ علاقائی طور پر بھارت کی اس طرح کی کامیابی اور ہر بلاک کا چاہے وہ امریکہ ہو یا روس ، اس کو اپنے اتحادی میں شامل کرنے کی کوششیں بھارت کی موجودہ عالمی سیاست میں حیثیت کو واضح کر رہی ہیں ۔ معاشی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے اور متنازعہ بلاکز کا بیک وقت اتحادی ہوتے ہوئے اپنے، ملکی مفادات کو بھارت جس طرح اپنی ماہرانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے حاصل کر رہا ہے وہ واقعی قابل تحسین ہے ۔ اگراس ہی برق رفتاری کے ساتھ اس کا یہ سفر جاری رہا تو کوئی بعید نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل میں مستقل رکنیت بھی حاصل کر لے ۔ جس کے ساتھ ہی ویٹو پاور کا حصول ، اس خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتا ہے ۔ چونکہ پاکستان اپنی رہی سہی حیثیت بھی کھوتا جارہا ہے اور پڑوس میں بیٹھی دشمن ریاست کا اس قدر طاقتور ہونا ، اس کی سالمیت کے لئے خطرناک
ہے ۔ روس جیسی طاقتور ریاست جو سیکیورٹی کونسل میں مستقل رکن بھی ہے وہ خاص طور پر اپنی خارجہ پالیسی کے مرتب کرتے میں بھارت کے مفادات کو خود سے جوڑ رہی ہے ۔ مارچ میں روس کی جانب سے دی جانے والی نئی خارجہ پالیسی جہاں بھارت کے لئے عالمی سیاست میں راہ ہموار کر رہی ہے ، وہیں بھارت کے جارحانہ رویے سے لاحق بے تحاشا خطرات اور عالمی طور پر بڑھتا اثر ورسوخ کشمیر اور پاکستان کے لئے الرمنگ ہے۔ ایسے میں چند پاکستانی دانشوروں کی جانب سے یہ رائے پیش کی جارہی ہے کہ، چونکہ بھارت اور چائنا کے باہمی تنازعات کی باعث ، چائنا روس کو پابند کرے گا کہ وہ بھارت سے ساتھ تعلقات کو کم کرئے اور خطے میں ان دونوں کی چپقلش ،پاکستان کے لئے سود مند ثابت ہوگی ۔ لیکن حقیقتا ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ چائنا اور بھارت تو پہلے ہی ریکارڈ ز تجارتیں کر رہے ہیں اور اگر آپ قارئین کو یاد ہو تو پچھلے ایک کالم میں اس بات کا تذکرہ بھی کیا تھا کہ اب چائنا کے ناقدین بھی چائنا کے پالیسی سازوں کو اس بات کی تجویز دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے بجائے ، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کریں کیونکہ معاشی ترقی کے اس سفر میں بھارت اس کا بہتر ساتھی ثابت ہوسکے گا اور زرا خود معقولیت کے ساتھ ہم بھی سوچیں تو معلوم ہوگا کہ آج عصر حاضر میں جب فقط ریاستوں کا محور ” معیشت” ہی ہے تو پھر کیونکر چائنا یا پھر روس ترقی کے راستے پر تیزی سے گامزن ریاست سے تعلقات کی بحالی نہیں کرئیں گے ؟ ویسے بھی روس اور بھارت کے تعلقات تو ماضی سے ہی
خوشگوار رہے ہیں ۔ ویٹو کو استعمال کرتے ہوئے کتنی ہی بار روس نے بھارت کو اقوام متحدہ کی اس کے خلاف ہونے والی قراردوادوں سے بچایا ہے تو بدلے میں بھارت بھی روس اور یوکرین جنگ میں روس کے خلاف قرارداد دینے سے مجتنب رہا ہے۔ بہرحال بھارت کا علاقائی سطح پر مضبوط ہونے کا مطلب مظلوم کشمیریوں کی زندگی میں مزید اذیت کا شامل ہونا ہے۔ تاہم بھارتی جارحانہ رویہ خاص کر پاکستان کے لئے جو بھارت اپنائے رکھتا ہے ، وہ کسی بھی طور ہمارے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ دو ایٹمی ریاستوں کے مابین علاقائی طاقت کے توازن میں بگاڑ مزید پیچیدگی اختیار کرسکتا ہے ۔ چونکہ پاکستان اندرونی انتشار سے اتنا لاغر ہوچکا ہے کہ بیرونی کوئی بھی سازش یا جارحانہ عمل اس کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ لہذا حالات کا تقاضا ہے کہ جلد از جلد اندرونی عدم استحکام پر قابو پا کر تیزی سے ایسی حکمت عملیاں مرتب کی جائیں جس میں ہم علاقائی سیاست میں اپنی حیثیت منوا کر طاقت کے توازن کو قائم کرسکیں۔ جو کہ اب یہ نا گزیر ہوچکا ہے۔عالمی اورعلاقائی سیاست کے منظر نامے میں پاکستان کے کردار کو یکسرخارج کر دینا ، کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ یہ وارننگ ہے کہ کیسے حالات سنگینی کی جانب جارہے ہیں۔ امریکہ کے افغانستان سے جانے اور طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان اپنی جیواسٹریجیک لو کیشن بھی کھو چکا ہے ۔ جس کے بعد اب ایسے معاشی عوامل کو ایمرجنسی بنیادوں پر اپنانا ہوگا جس میں ہم اپنا کھویا ہوا عالمی اور علاقائی وقار پھر سے حاصل کر سکیں ۔ وگرنہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ ، روس کے یوکرین اور چائنا کے تائیوان پر دعوے سے کہیں گنا زیادہ کرب ناک ثابت ہوگا ! ۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام