ٹک ٹاک نہیں کمیونٹی سروس

ہمارے کم ہی تعلیمی ادارے ا یسے ہوں گے جہاں طلبہ کو معاشرے کی خدمت کی عملی تربیت دی جاتی ہے ہمارے پاس کمیونٹی کا تصور تو موجود ہے لیکن وہ صرف پروبیشن افینڈرز آرڈی ننس 1960ء کے تحت مجرموں کے لئے محدود ہے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ادارے طلباء کی رہنمائی ضروری نہیں سمجھتے سمجھتے بھی ہوں تو عملی طور پر کم از کم اس کا مظاہرہ نظر نہیں آتا اس کے نتیجے میں ہمارے طلبہ اپنی شہری ذمہ داریوں کو بھی ضروری نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں ہمارے نوجوانوں اور معاشرے میں بے حسی پھیلتی جارہی ہے کیونکہ نوجوانوں کو ملک کے مسائل حل کرنے کے لئے تربیت ہی نہیں دی جاتی ‘ کمیونٹی سروس میں حصہ لینے سے ہی کمیونٹی کے مسائل کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے ان کے حل کے لئے دستیاب وسائل سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے اور انہی مقاصد کے لئے مصروف عمل دیگر فلاحی تنظیموں سے بھی ربط قائم کر سکتا ہے اس سے عملی تربیت ہوتی ہے جبکہ ٹیم میں کام کرنے کے اپنے فوائدہیں پاکستان میں نوجوان کل آبادی کا چھیاسٹھ فیصد ہیں ۔ آبادی کے اس حصے کی احسن انداز میں تربیت کی جائے اور ان کا ایک مثبت رخ متعین کیا جائے تو بڑی معاشرتی تبدیلی کی ابتداء ہوسکتی ہے ۔ میری پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی ترجیحات میں طلبہ کی کمیونٹی سروس کو لازمی قرار دیں اس ضمن میں طلبہ کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے علاقے اور اردگرد ہی سہی لیکن طلبہ کو اس طرف متوجہ کرنے کی ذمہ داری نبھائی جائے تاکہ ہمارے طلبہ میں بہترین قائدانہ صلاحیتیں سامنے آئیں اور مضبوط اخلاق و کردار بنا پائیں ہمارے نوجوانوں کی تربیت کے لئے تعلیمی اداروں کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے تاکہ ان میں سماجی معاشرتی سیاسی اور اقتصادی معاملات کے حوالے سے بہتر سمجھ بوجھ پیدا ہو۔ ہم اس ملک کا مستقبل ہیں اور ہمیں اس معاشرے اس وطن اور یہاں کے لوگوں کی مل جل کر خدمت کرنی ہے ۔مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ خیبر پختونخوا نہیں بلکہ پاکستان کی سطح پر عملی تربیت اور ہنرسکھانے والا ادارہ پاک آسٹریا فخوشولے انسٹی ٹیوٹ آف ایپلائڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ہری پور کے طلبہ کو عملی ‘معاشرتی خدمات کے حوالے سے ایک اچھا ماحول اور تربیت دینے کا انتظام موجود ہے ۔ کمیونٹی سروس کے طور پر طلبہ کو کیریئر کونسلنگ سے لے کر دیگر سماجی وسماجی خدمات میں عملی طور پر حصہ لینے کے لئے تربیت اور مواقع فراہم کئے جاتے ہیں ۔ رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں شعبہ ڈیٹا سائنس کے پہلے سمسٹر کے طلبہ کو افطار پروگرام کا پراجیکٹ دیا گیا جس کے لئے طلبہ نے چندہ کرکے فنڈز اکٹھے کئے ثاقب علی ویلفیئر ہری پور کے تجربے اور تعاون سے افطار پروگراموں کے سلسلے میں شرکت کر رہے ہیں اور مزید چند دنوں تک اس میں سرگرمی سے حصہ لینے کے لئے پرعزم ہیں اس کے پہلے پروگرام کی مختصر ویڈیو اور جو تصاویر مجھے بھیجی گئی ہیں وہ نہایت متاثر کن اس لئے ہے کہ وہ نوجوان جن کے کھیلنے اور ٹک ٹاک بنانے کے دن ہیں وہ روزہ افطار کرانے میں سرگرم ہیں ایک بڑی مارکیٹ یا پھر کسی عمارت کے سامنے کھلی جگہ میں چٹائیاں بچھا کر کھجور ‘ شربت ‘ کھانا اور فروٹ کے تھال کے تھال بنا کر فرشی نشستوں پر بیٹھے افراد کو سلیقے سے پیش کرنے کا منظر اور نوجوان طلبہ کا انہماک دیکھ کر احساس ہوا کہ یہی ہمارے دین ہمارے مذہب ہمارے معاشرے اور انسانیت کی خدمت کا تقاضا ہے ان تصاویر اور ویڈیو کی سب سے خاص بات یہ کہ کسی بھی طالب علم اور افطار پروگرام کے مہمانوں یعنی میزبانوں اور مہمانوں میں کسی پر بھی کیمرہ زوم نہیں کیاگیا بمشکل ہی کوئی اپنے جاننے والے کو پہچان سکتا ہے نمائش سے پرہیز اور عزت نفس کا اس درجے کا خیال اس پروگرام کو احسن انداز سے چلانے کا تاثر راسخ کرتا ہے ۔ وگرنہ ہمارے ہاں وزیر اعظم جیسے عہدے کے شخص کا ایک پلیٹ سالن کسی نادار کو پیش کرنے کی کتنی پبلسٹی ہوتی ہے ایک آٹا کا تھیلا دے کر اس کی کتنی تشہیر ہوتی ہے اور اگلے کی عزت نفس کا کس درجہ مذاق اڑایا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس خدمت کی طرف ادارے کی جانب سے طلبہ کو راغب کرنا اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے نوجوانوں کی اپنی لگن نہ ہوتی تو اس کا کامیاب انعقاد آسان نہ تھا۔دوسرے تعلیمی اداروں کو اس کی تقلید کرنی چاہئے میری گزارش ہے کہ ملک بھر
کے تمام تعلیمی اداروں میں کمیونٹی سروس کی عملی طور پر تربیت دی جائے اور اسے بطور اہم مضمون لازمی قرار دے کر اس کا باقاعدہ مطالعہ اور عملی طور پر خدمات کے بھی نمبر مقرر کئے جائیں معاشرہ جس بے حسی اور عدم برداشت کا شکار ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ ایسی عملی تربیت کا اہتمام ہو کہ نوجوان تعلیمی اداروں سے مثبت رجحانات اور عملی تربیت لے کر نکلیں ۔ ہمیں اس امر کی طرف بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمیں عملی طور پر اس امر کا ادراک ہو جائے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہو جو باحوصلہ سماج ‘ بلند ہمتی اور انسانی ا قدار کا سچا علمبردار ہو اور اس کی تربیت ہمارے تعلیمی اداروں میں عملی طور پر مروج ہو۔ تعلیم کا حقیقی مقصد ہی یہی ہے کہ پاکیزہ اور صالح افکار سے متصف معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے ۔ غمگساری اور خیر سگالی کے جذبہ سے معمو ر ہو اور اپنی سنجیدہ کوششوں کی بدولت نوع انسانی کی فلاح کی فکر کرنے والے نوجوان معاشرے میں آئیں۔ جب معاشرہ میں اس نوعیت کی محنت ہو گی تو اس کے بعد ہی سماج کے دبے اور کچلے طبقے کا احساس پیدا ہو گا اور یہ بشریت کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بنے گا اس کے بعد ہی ایسے مثالی معاشرے کی تشکیل کی راہ ہموار ہوسکے گی جس کے نتیجے میں کوئی بشر اپنی بے بسی کا معاشرے سے شاکی نہ ہو گا کسی بھی سماج کی ترقی کا راز اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں عوام کے حوالے سے اجتماعی رویہ کیا ہے اونچ نیچ کی صورتحال سے معاشرے کا امن متاثر ہوتا ہے اور سماج میں تفریق کا باعث بننے والے معاشرے کو کمزور کردیتے ہیں سماجی یکجہتی ختم ہو جاتی ہے آج ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم جن معاشرتی اقدار کے وارث ہیں وہ اقدار معاشرے ‘ گھر اور خاندانوں سے رخصت ہو چکیں ہمسایہ کو ہمسایہ کی خبر نہیں علوم کی تقسیم دینی و عصری کی ہو چکی حالانکہ ہمارے اسلاف نے ان میں ہمیشہ توازن رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیم اس اندازسے ہونی چاہئے کہ اسے حاصل کرنے کے بعد لوگ ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن اور دکھ درد بانٹنے والے بن جائیں تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا اور مادی ترقی نہ ہو بلکہ اس کے ذریعے صالح معاشرے کا قیام ہو یہ ساری باتیں اسی وقت ہی ہوسکیں گی جب تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اچھا ا نسان بننے کے لئے عملی طور پرتیار کیا جائے گا جس میں اتنی تڑپ ہو کہ وہ اپنے احتیاجات کے باوجود معاشرتی فوز و فلاح کے لئے بھی عملی طور پر کوشاں ہوں اور اسے وہ اپنی ذمہ داری جانیں۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟