پولیس اہلکاروں کی فریاد

تھانہ رحمان بابا میں پولیو ڈیوٹی کیلئے کوہاٹ سے آنے والے پولیس اہلکاربے یارومددگار پڑے عملے کی اپنی حالت زار کی ویڈیو سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کا ماتحت عملہ کن حالات میں کام پر مجبور ہے۔وائرل ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ کوہاٹ سے آنے والے درجنوں اہلکار بے یارومددگار پڑے ہیں۔ ایک اہلکارشکایت کر رہا ہے کہ ان کو تھانے میں سیڑھیوں کے نیچے اورادھر ادھر لٹایاگیا ہے رہائش کامعقول بندوبست نہیں ہے ۔ مچھروں کی بھرمارہے اورواش روم کا پانی بھی وہیں سے بہتا ہے ا گرچہ پولیس حکام نے نوٹس لے کر مسئلہ حل کرنے کا عندیہ تودے دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوں میں جب پولیس اہلکار روزے میں دن بھر فرائض منصبی انجام دے کر آتے ہیں تو کم از کم ان کے لئے مناسب رہائش اور کھانے کا بندوبست ہی کیا جانا چاہئے تھا جو ان کا بنیادی حق اور پولیس حکام کی ذمہ داری ہے یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس کے بارے میں مختلف شکایات پہلے بھی سامنے آچکے ہیں جس کے مطابق پولیس اہلکاروں کو دی گئی آہنی خود اور بلٹ پروف جیکٹ معیاری نہیں پولیوڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کو چلی ہوئی کارتوس فراہم کرنے میں کس قدر حقیقت ہے اور یہ کس حد تک پروپیگنڈہ ہے بہرحال اس کی تحقیقات ہونی چاہئے اور صورتحال کی وضاحت ہونی چاہئے جس سے قطع نظر پولیس اہلکاروں کی جانب سے جس حالت زار اور جن حالات میں کام کرنے پر مجبور ہونے کی فریاد کی گئی ہے اس کی شکایت ان کی جانب سے متعلقہ حکام کو پہلے بھی کی گئی ہو گی اور مسئلہ حل نہ ہونے پرہی بامر مجبوری سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا ہوگا اس طرح کے حالات میں فورس کا مورال بلند رہنا اور مستعدی و چوکسی کی حالت میں ڈیوٹی کی ادائیگی ممکن نہیں جو پولیس اہلکار جان خطرے میں ڈال کر پولیو عملے کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں ان سے اس طرح کا سلوک تو روا نہ رکھا جائے ۔نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور آئی جی خیبر پختونخوا کو پولیس کی ان بدانتظامیوں کا نوٹس لینا چاہئے اور اس امر کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ پولیس اہلکار ویڈیو بنا کر اپنی حالت زار بیان کرنے پر کیوں مجبور ہوئے آئندہ اس طرح کے حالات کے تدارک کا موثر نظام بنایا جائے اور پولیس فورس کو ایک نظم و ضبط کا حامل فورس بنانے کی اشد ضرورت پوری کی جائے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ جن اہلکاروں نے باامر مجبوری ویڈیو بنانے پر مجبور ہوئے ان کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس