پاکستان میں معاشی بحران اور اس کا حل

وطن عزیز پاکستان کے لیے مسلمانوں نے جان کے نذرانے پیش کیے تھے یہ ملک بڑی کوششوں سے معرضِ وجود میں آیا لیکن آزادی کا پورا ثمرہ تاحال ہمیں نصیب نہ ہوسکا ۔ اس ملک پر حکومت کے روپ میں مختلف تجربات کیے گئے۔ ہر حکمران نے اقتدارِ سے پہلے ملک کی ترقی کے لیے بلند وبالا دعوے کیے لیکن تاحال کوئی بھی حکمران اپنے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری نہ کرسکا۔ بعض حکمرانوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بقول شاعر
وہ نکلتا ہے بعد میں ناقص
ہم جسے بہترین کہتے ہیں
ہمارا ملک کئی سالوں سے دہشت گردی، بم دھماکوں کی لپیٹ میں رہا (اور اب بھی ہے) توکبھی آٹا بحران ، کبھی تیل کا بحران،تو کبھی معاشی بحران اور آب آئینی بحران کا شکار ہوا ہے۔
آج وطن عزیز اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ ملک پر مجموعی 127 ارب ڈالرز کا قرضہ ہے مقروض ملک ہونے کی وجہ سے ہم اپنے معاشی فیصلے آزادی کے ساتھ نہیں کرسکتے بجلی، گیس، تیل اور دیگر اشیا کی قیمتیں آئی ایم ایف کے ایماء پر مقرر کی جاتی ہیں۔ ملک کی تقدیر آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے۔آئی ایم ایف نے طے کرنا ہے کہ کس چیز کی کیا قیمت ہوگی اور کب کتنا ٹیکس لگانا ہے ۔رواں برس ہماری حکومت قرض کے لیے بار بار آئی ایم ایف کے در پر گئی لیکن اس دفعہ انہوں نے اپنی شرائط سخت کر دی ہیں کہ آپ عوام پر بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کریں اور مختلف اشیا پر ٹیکس لگا دیں تاکہ ان سے آپ گردشی قرضہ آسانی سے ادا کر سکیں ۔
تو حکومت مجبورا آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔پاکستانی کرنسی تیزی سے گرچکی ہے۔آج ایک امریکی ڈالر 280 پاکستانی روپے کے برابر ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے کار خانوں نے مصنوعات تیار کرنا بند کر دیے ہیں ۔ جس سے ایکسپورٹ متاثر ہوئی بیرونی ممالک سے امپورٹ ہونے والی اشیا ڈالر اور دوسری وجوہات کی وجہ سے انتہائی مہنگی ہو چکی ہیں ۔ اس طرح ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن وسائل آبادی کے تناسب سے موجود نہیں ۔اوپر سے عوام کی خوشحالی کے میگا پراجیکٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں ان ذرائع سے وہ اپنا زرمبادلہ وافر مقدار سے بڑھا رہے ہیں ۔ ہمارے ملک نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔مختلف ٹی وی چینلز پر ماہرین معاشیات پاکستان کی معیشت پر طرح طرح کے تجزیے پیش کرتے ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں ہو رہے ۔ان تمام مشکلات ومسائل کی وجوہات پر قارئین نے کبھی غور وعوض کیا ہے کہ یہ مسائل کیوں اور کیسے پیدا ہوئے؟ ان مسائل میں چند قابل غور مسائل یہ ہیں ۔ ہمارے ملک میں آزادی سے آج تک مختلف ڈکٹیٹروں نے تیس سال تک حکومتیں کی ہیں انہوں نے جمہوریت کو تسلسل نہیں دیا۔ہمارے عدالتی نظام میں بروقت کسی کو انصاف نہیں ملتا ہے ۔ اس وجہ سے کسی بھی ڈکٹیٹر ، کرپٹ سیاستدان، کرپٹ برو کریٹ کو سزا نہیں دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام تعلیم رائج ہے جس سے معاشرے میں بڑا بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ملک کی باگ ڈور کارخانہ داروں، چوہدریوں، وڈیروں، نوابوں اور سردارں کے پاس ہے ۔ یہ افراد اگر کوئی جرم بھی کر لیں تو ریاست کی طرف سے ان کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ قوانین غریب ، فقیر اور ادنی درجے کے ملازمین کے لیے ہیں۔ ان بے رحم بیوروکریٹس ،آفسرز اور سیاستدانوں نے عوام کی بھلائی کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اس کمزور ملک کے افسران کتنی فضول خرچیاں کرتے ہیں بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے اور بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں ان کو حکومت کی طرف سے تیل، بجلی ٹیلی فون اور دیگر مراعات مفت مہیا کی جاتی ہیں بعض افسروں کے بچے اور رشتہ دار بھی سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ اس دیس میں بسنے والے اکثر افراد انتہائی محنت کش ، جفاکش اور محنت مزدوری کرنے والے ہیں ان میں لاکھوں کی تعداد میں بیرونی ممالک میں محنت اور مزدوری کرتے ہیں جس سے ملک کو کثیر زرمبادلہ ملتا ہے لیکن دوسری طرف بہت سے افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اس غربت سے وہ طرح طرح کے مسائل سے دو چار ہیں ان میں ذہنی مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے لاکھوں افراد نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ آئے روز کی مہنگائی کی وجہ سے قتل و غارت، چوری، ڈکیتی، اور خودکشیوں کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کیسے ممکن ہے ؟ تمام پارٹیوں کے قائدین ایک دوسرے کی مخالفت چھوڑ دیں۔ ملک کو بچانے کے لیے ایک میز پر بیٹھ کر متفقہ فیصلے کیے جائیں۔ اگر یہ ملک سالم رہا تو سب باری باری حکومت کر سکیں گے۔ حکومتی وزرا، فوج ، عدلیہ ، مقننہ، انتظامیہ اور بیوروکریسی اپنے بجٹ میں کمی کریں بڑی بڑی گاڑیوں کا استعمال ترک کیا جائے۔ بیرونی ممالک کے دورے کم سے کم کیے جائیں ۔ مفت تیل ، بجلی اور دیگر پرتعیش مراعات تمام ملازمین سے واپس لیے جائیں ۔ تمام اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں یکساں کی جائیں۔ ہر محکمے کے لیے واضح قانون سازی کی جائے ۔ کرپشن ، رشوت اور سفارش کے لیے سخت سزائوں کا قانون بنایا جائے۔ زراعت، کارخانوں اور معدنیات کو ترقی دی جائے ۔ زرعی زمین پر رہائشی مکانات بنانے پر مکمل پابندی لگائی جائے ۔ بیرونی ممالک کو زیادہ سے زیادہ افراد محنت مزدوری کے لیے بھیج دیے جائیں ۔ کارخانوں کے لیے بجلی کی قیمت میں نمایاں کمی کی جائے۔ وہ ادارہ جو ہر سال نقصان کرتا ہے اس میں اصلاحات لائی جائیں۔ اسلام کے زریں اصول کفایت شعاری پر عمل کیا جائے۔
حدیث میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا۔
”ترجمہ” جس نے میانہ روی کی وہ غریب نہیں ہوگا۔(مسند احمد)
دوسری حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
” ترجمہ” خرچ میں میانہ روی رکھنا،آدھی زندگی ہے۔
ہم سب کو چاہیے کہ اپنا خرچ کم اور آمدن میں اضافہ کیا جائے ۔ تو ان شااللہ یہ ملک ضرور ترقی کرے گا۔ملک کو گھمبیر مسائل سے نکالنے کے لئے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جب تک من حیث المجموع اخلاص کے ساتھ کوششیں نہ کی جائیں نمائش اور تعیشات کوچھوڑ کرسادگی نہیں اپنائی جاتی اس وقت تک بہتری کی توقع نہیں قوم اگر عزم کرلے اور پیٹ پرپتھر باندھ کرحالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرکے اس پرقائم رہاجائے توکوئی وجہ نہیں کہ بہتری کی راہ نہ نکل آئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار