اے ٹی ایمز کی خرابی کا مستقل مسئلہ

کوئی خاص موقع اور مہینے کی پہلی تاریخ ایسی نہیں گزرتی جس میں صارفین کو اے ٹی ایم کی خرابی کے باعث مشکلات کا سامنا نہ ہو ۔ صارفین کو کبھی کیش ختم ہونے ‘ کبھی اے ٹی ایم کیبن کا دروازہ بند ہونے سمیت مختلف مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے عیدین کے موقع پر تو اے ٹی ایم سے کیش نکالنا جوئے شیر لانے کے متراف امر بن جاتا ہے یہ مسئلہ ہر ماہ اور ہر سال اور ہرمواقع کا ہے اس کی نشاندہی بھی ہوتی ہے صارفین کی جانب سے شکایات بھی ہوتی ہیں مگر سٹیٹ بینک کے متعلقہ حکام اس کا سختی سے نوٹس نہیں لیتے بلکہ اب تو ان کی مانیٹرنگ کا نظام بھی شاید پہلے کی طرح فعال نہیں رہا جو بینکوں کی جانب سے لاپرواہی کا ایک ممکنہ سبب ہو سکتا ہے۔عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر بینکوں کے اے ٹی ایمز کی کارگزاری کے حوالے سے شکایات اس برس عید سے پہلے ہی شروع ہو گئیں۔ بینکوں میں رش کے باعث عید الفطر سے پہلے اے ٹی ایمز سے رقم نکلوانے والے متعدد کھاتے داروں نے مشینوں کے جواب دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صارفین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف اے ٹی ایمز پر رقم نکلوانے کی درخواست پر معذرت کے پیغامات آ رہے ہیں جبکہ بعض مشینوں پر رقم نکالنے کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے اور کھاتہ داروں کا بہت وقت ضائع ہوا ہے۔ یہ صورت حال عید کی چھٹیوں سے پہلے سامنے آئی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تعطیلات کے دنوں میں کیا مشکلات سامنے آ ئی ہوں گی۔ اسٹیٹ بینک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جن بینکوں کے اے ٹی ایمز کی شکایات ملیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ متعدد مواقع پر یہ کیفیت سامنے آئی کہ صارف ایک اے ٹی ایم سے دوسرے اور تیسرے اے ٹی ایم کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن رقم کا حصول کسی بلند پہاڑ کی چوٹی سر کرنے جیسی مہم کا حصہ معلوم ہو رہا ہے۔ بعض اوقات ایسے ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں جن میں فوری رقم کا حصول درکار ہوتاہے۔ اے ٹی ایم ایسے مواقع بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں بشرطیکہ ان میں مناسب رقوم موجود ہوں، متعلقہ بینک اوقات بینکاری کے بعد یا تعطیلات کے دوران اے ٹی ایمز کا جائزہ لیتے رہنے اور ان تک مزید رقم پہنچانے کا سلسلہ کسی تعطل کے بغیر جاری رکھیں۔ یقینا ان کی یہی کوشش ہوتی ہوگی مگر اسباب جو بھی ہوں، کھاتہ داروں کو ضرورت کے تحت رقم کی فوری فراہمی کا نظام اپنی بھر پور افادیت ظاہر کرنے کی کوششوں میں لڑکھڑاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ اسٹیٹ بینک اور کمرشیل بینکوں کو مل کر غور کرنا چاہئے کہ اس میکنزم کو کس طرح مزید موثر، فعال اور مفید بنایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار